خزائن الحدیث |
|
علیہ وسلم یہ دعا نہ سکھاتے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ قضائے الٰہی کو تبدیل کرنا محال ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بندوں کے لیے محال ہے، اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ مشکل نہیں ۔ وہ حاکمِ مطلق ہیں، جب چاہیں اپنے فیصلہ کو تبدیل فرما سکتے ہیں۔ اسی کو مولانا رومی عاشقانہ انداز میں مانگتے ہیں کہ اے اللہ! اگر میری قسمت میں کوئی سوء قضا آپ نے لکھ دی ہو تو اس سوء قضا کو حسنِ قضا سے تبدیل فرما دیجیے کیوں کہ قضا آپ کی محکوم ہے، آپ پر حاکم نہیں ہو سکتی۔ آپ کا فیصلہ آپ پر حکومت نہیں کر سکتا، آپ کے فیصلوں کو آپ پر بالادستی حاصل نہیں بلکہ آپ کو اپنے فیصلوں پر بالا دستی حاصل ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ فرمایا کہ میں قیامت کے دن کا مالک ہوں۔ قیامت کے دن میری حیثیت قاضی اور جج کی نہیں ہوگی، قاضی اور جج تو قانونِ مملکت کا پابند ہوتا ہے۔ قانون کے خلاف وہ کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا، کہہ دیتا ہے کہ صاحب! کیاکریں؟ قانونی مجبوری ہے، لیکن مجھے کوئی قانونی مجبوری نہیں ہوسکتی کیوں کہ میں قیامت کے دن کا مالک ہوں، قاضی اور جج کی طرح قانون کا پابند نہ ہوں گا، جس کو چاہوں گا اپنے شاہی رحم سے بخش دوں گا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے عرشِ اعظم کے سامنے یہ عبارت لکھوائی ہوئی ہے کہ سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ عَلٰی غَضَبِیْ؎ میری رحمت اور غضب کی دوڑ میں میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی۔ موضح القرآن کے مصنف حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلویرحمۃ اﷲ علیہ نے لکھا ہے کہ یہ عبارت از قبیل مراحمِ خسروانہ ہے یعنی بطور شاہی رحم کے ہے۔ دنیا میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ سے جب کوئی مجرم ہار جاتا ہے، تو اخباروں میں آجاتا ہے کہ مجرم نے شاہ سے رحم کی اپیل کر دی، لہٰذا جو گناہ گار جہنم کا مستحق ہو گا اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں گے اپنے شاہی رحم سے، اپنے مراحمِ خسروانہ سے بخش دیں گے۔ یہ بات تفسیر موضح القرآن میں ہے اور یہ تفسیر چودہ سال میں لکھی گئی اور جس پتھر پر شاہ صاحب کہنی سے ٹیک لگا کرلکھا کرتے تھے اس پتھر پر نشان پڑ گیا تھا۔ یہ بات میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے مجھے بتائی، لہٰذا ہم اسی دنیا میںیہ دعا مانگ لیں، کیوں کہ آخرت دارلجزا ء ہے وہاں کوئی نہیں مانگ سکتا، وہاں کوئی عمل نہیں کر سکتا۔ یہ دنیا دارالعمل ہے، لہٰذا ہم یہاں پہلے ہی اللہ تعالیٰ سے رحم کی اپیل کر دیں کہ اے اللہ! ہمیں قیامت کے دن اپنے مراحمِ خسروانہ سے بخش دیجیے۔ وَشَمَاتَۃِ الْاَعْدَآءِاور دشمنوں کی طعنہ زنی سے پناہ مانگنا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سکھا رہے ہیں، مثلاً جو شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا ہو اور کسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے، تو دشمن طعنہ دیتے ------------------------------