خزائن الحدیث |
|
وَّیُمۡدِدۡکُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّ بَنِیۡنَ وَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ جَنّٰتٍ وَّ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ اَنۡہٰرًا؎ اپنے رب سے معافی چاہو، وہ بہت بخشنے والا ہے۔ آسمان سے تم پر پانی برسائے گا اور استغفار کی برکت سے تمہارے مال اور تمہاری اولاد کو بڑھا دے گا۔ اموال کو مقدم فرمایا، تاکہ بندے گھبرانہ جائیں کہ اولاد زیادہ ہوئی تو کہاں سے کھلاؤں گا۔ وَدَرْکِ الشَّقَاءِشین پر زبر ہے، جس کے معنیٰ بد بختی اور بد نصیبی کے ہیں۔ ا س وقت تو ہم چین و آرام سے ہیں، لیکن پناہ چاہتے ہیں کہ آیندہ کوئی بدبختی ہم کو پکڑ لے، لہٰذا اے اللہ! ہمارے مستقبل کو شقاوت و بد نصیبی سے تحفظ عطا فرما۔ اور گناہوں کو شقاوت و بد نصیبی میں بڑا دخل ہے، گناہوں سے شقاوت پیدا ہوتی ہے، اس کی دلیل حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ دعا ہے: اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ بِتَرْکِ الْمَعَاصِیْ وَ لَا تُشْقِنِیْ بِمَعْصِیَتِکَ ترجمہ:اے اللہ! مجھ پر وہ رحمت نازل فرما کہ جس سے میں گناہوں کو چھوڑ دوں اور مجھے میرے گناہوں کی وجہ سے بدبخت نہ ہونے دیجیے۔ معلوم ہوا کہ گناہوں میں شقاوت اور بد بختی کی خاصیت ہے، اس لیے گناہوں کو جلد چھوڑ دینا چاہیے، ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ گناہوں کی نحوست سے شقاوت مقدر ہو جائے۔ اس دعا میں دَرْکِ الشَّقَاءِسے پناہ مانگی گئی تاکہ ہمارا مستقبل شقاوت سے محفوظ ہوجائے۔ وَسُوْءِ الْقَضَاءِمیں مستقبل کی بد نصیبی سے پناہ مانگی جا رہی ہے کہ اگر مستقبل میں آپ نے میری تقدیر میں کوئی شقاوت اور سو قضا لکھ دی ہوتو اس کو حسنِ قضا سے تبدیل فرما دیجیے۔ جو فیصلے میرے حق میں بُرے ہیں ان کو اچھے فیصلوں سے تبدیل فرما دیجیے۔ یہاں سوء کی نسبت قاضی کی طرف نہیں مقضی کی طرف ہے، اللہ تعالیٰ کا کوئی فیصلہ’’سوء‘‘ ہو ہی نہیں سکتا، لیکن جس کے خلاف وہ فیصلہ ہے اس کے حق میں بُرا ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں، اسی کو مولانا فرماتے ہیں ؎ کفر ہم نسبت بہ خالق حکمت است اگر قضا اور فیصلہ کی تبدیلی اللہ کو منظور نہ ہوتی اور سُوء قضا کا حُسنِ قضا سے مبدل ہونا محال ہوتا تو حضور صلی اﷲ ------------------------------