خزائن الحدیث |
|
اور دو بیٹیوں کی پرو رش پر جنت کی بشارت دی، تو کسی نے عرض کیا کہ اگر کسی کے ایک ہی لڑکی ہے؟ تو آپ نے اس کو بھی جنت کی بشار ت دی۔اگر یہ نعمت نہ ہوتیں تو ان پر جنت کا وعدہ نہ ہوتا۔ معلوم ہوا کہ یہ سبب نزولِ رحمت ہیں، لہٰذا جس کے گھر بیٹیاں پیدا ہوں وہ خوش ہوجائے، ہرگز دل چھوٹا نہ کرے اور ان کو نعمت سمجھے۔ جن کی وجہ سے جنت مل جائے وہ نعمت نہ ہوں گی؟ پس بیٹی پیدا ہونے کی خبر سن کر جس کے چہر ہ پر غم آجائے یہ شعارِ کافرانہ ہے یعنی کافروں جیسا کام ہے، کیوں کہ کافر بیٹیوں کی خبر سن کر غمگین ہو جا تے تھے اور زمانۂ جاہلیت میں بیٹیوں کو لعنت سمجھتے تھے کہ داماد ڈھونڈنا پڑے گا اور اپنی سبکی سمجھتے تھے، اسی لیے زندہ دفن کر دیتے تھے، ایسے شقی القلب اور جانور تھے۔اسی کو اﷲتعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا: وَ اِذَا الۡمَوۡءٗدَۃُ سُئِلَتۡ ۪ۙ﴿۸﴾ بِاَیِّ ذَنۡۢبٍ قُتِلَتۡ ؎ جب زندہ دفن کی جانے والی سے پو چھا جائے گا کہ تجھے کس جرم میں قتل کیا گیا؟ ان بیٹیوں ہی سے تو انسان پیدا ہو تے ہیں، ان کو حقیر سمجھنا علامتِ کافرانہ اختیار کرنا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرما تے ہیں: یَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ الذُّکُوۡرَ؎ اﷲ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطا فرما تا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے عطا فرما تا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں بیٹیوں کو مقدم فرمایا جس سے ان کی فضیلت ظاہر ہو تی ہے اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ار شاد فرمایا کہ وہ عورت مبارک ہے جس کے پیٹ سے پہلی مر تبہ بیٹی پیدا ہو۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: اِنَّ مِنْ یُّمْنِ الْمَرْأَۃِ تَبْکِیْرَھَا بِالْاُنْثٰی قَبْلَ الذَّکَرِ؎ اور روح المعانی میں حضرت قتادہ سے مروی ہے: مِنْ یُّمْنِ الْمَرْأَۃِ تَبْکِیْرُھَابِاُنْثٰی؎ لہٰذا بیٹیوں کے پیدا ہونے کی خبر سن کر مسکراؤ اور خو ش ہو جاؤ اور سمجھو کہ گھر میں برکت نازل ہوگئی۔ اسلام نے بیٹیوں کو کیا عزت دی ہے، اس لیے بیٹیوں کو نعمتِ عظمیٰ سمجھو، ان ہی سے تو اولیاء اﷲ پیدا ہوتے ہیں اور ------------------------------