خزائن الحدیث |
|
أَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ الصِّحَّۃَ وَالْعِفَّۃَ وَالْاَمَانَۃَ وَحُسْنَ الْخُلْقِ وَالرِّضَا بِالْقَدَرِ وَالْعَیْشَ بَعْدَ الْمَوْتِ یہ بلاغت کلامِ نبوت ہے کہ الفاظ کی اس ترتیب میں خاص علوم ہیں، صحت کے بعد ہر لفظ کو صحت سے خاص تعلق ہے یعنی ہر مقصد بعد صحت جو مذکور ہے صحت کا موقوف علیہ ہے چناں چہ صحت کے لیے عفّت (پاک دامنی) ضروری ہے، غیر عفیف اکثر بیمار ہوجاتا ہے اور عفت کے لیے امانت ضروری ہے اور امانت نام ہے مالک کے عطا فرمودہ اعضاء اور ان کی قوتوں کو مالک کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا اور سب سے اہم امانت دو ہیں: (۱)امانتِ چشم، (۲)امانتِ صدر جس کو اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان فرمایا ہے یَعْلَمُ خَآئِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَاتُخْفِی الصُّدُوْرُاﷲ تعالیٰ آنکھوں کی خیانت اور دل کی خیانت سے باخبر ہیں۔ امانت کے خلاف استعمال کو خیانت کہتے ہیں۔ پس جو شخص امین العین اور امین الصدر ہوگا وہ اعضاء کی جملہ قوتوں کو بھی اﷲ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق استعمال کرے گا اور امانت کے خلاف استعمال سے صحت کواس وجہ سے بھی نقصان پہنچتا ہے کہ خیانت معصیت ہے اور ہر معصیت قلب کو بے سکون کرتی ہے اور قلب کی بے سکونی صحت کو خراب کرتی ہے خواہ کتنی ہی عمدہ غذا کھائے اور امانت کے لیے حسنِ خلق ضروری ہے مثلاً جس میں صبر ہوگا وہ شہواتِ خلافِ شریعت کو ترک کرے گا اور قلب و نظر کو خیانت سے بچائے گا۔ پس حسنِ خلق سے بھی صحت کو نفع ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر مغلوب الغضب ہو یا مغلوب الشہوت ہو یا بے صبر ہو یا حریص ہو قانع نہ ہو یا توکل وغیرہ نہ ہو تو ہر خلق کی خرابی سے تشویش پیدا ہوتی ہے جو مضرِ صحت ہے، مثلاً بےجا غضب سے ہائی بلڈ پریشر ہوکر فالج ہوجاتاہے۔ اسی طرح عدم توکل اور بے صبری سے ضعف اور دورۂ قلب ہوسکتا ہے اور حسنِ خلق موقوف ہے رضا بالقدر پر کیوں کہ جو تقدیر پرراضی ہوگا وہ مخالف حالات میں بھی راضی برضا رہے گا اور اطمینانِ قلب صحت کے لیے ضروری ہے اور فیصلۂ الٰہی پر راضی نہ ہونے سے دل پریشان رہتا ہے جس سے صحت کو نقصان پہنچتا ہے اور کوئی غذا جسم کو نہیں لگتی،یہاں تک کہ آدمی صاحبِ فراش ہوجاتا ہے اور اس کے بعد العیش بعدالموت جو فرمایایہ رضا بالقضا کے لیے معین ہے، کیوں کہ جس طرح مستقبل میں وطن کی راحت کی امید پر سفر کی صعوبتوں کا تحمل آسان ہوجاتا ہے اسی طرح وطنِ اصلی کی راحت کی امید پر دنیا کی تکالیف کا تحمل آسان ہوجاتا ہے۔ میرے شیخ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب رحمۃاللہ علیہ نے اس تقریر کو بہت پسند فرمایا تھا اور بمبئی میں ڈاکٹروں کے اجتماع میں خطاب کرایا تھا۔