خزائن الحدیث |
|
علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے بعد مسلمین انصار میںیہ سب سے پہلے بچے ہیں جو تولّد ہوئے۔ یہ اور ان کے والد دونوں صحابی ہیں اور کوفہ میں رہتے تھے اور شام کے ایک شہر (جس کا نام حمص ہے) کے گورنر بنائے گئے اور جس وقت یہ آٹھ سال سات مہینہ کے تھے،اس وقت حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی اور بالغ ہونے کے بعد منبر پر بیان کی جس کو صحابہ کرام نے قبول کیا۔ مسئلہ: اس میں دلیل ہے کہ جب بچے میں عقل ممیّز پیدا ہو جائے تو اس وقت اس کی روایت معتبر ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: فِیْہِ دَلِیْلٌ عَلٰی صِحَّۃِ تَحَمُّلِ الصَّبِیِّ الْمُمَیِّزِ لِاَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَاتَ وَلِلنُّعْمَانِ ثَمَانُ سِنِیْنَ تشریح:اَلَا وَ اِنَّ فِی الْجَسَدِ میں جو واؤ ہے وہ جملہ مقدر پر عطف ہے،جویہ ہے وَ ھِیَ اَنَّ حَقِیْقَۃَ الْاَمْرِ(مضغۃ) قلب کو مُضْغَۃً سے اس لیے تعبیر فرمایا تاکہ معلوم ہو جائے کہ جسم کے مقابلے میں قلب بہت چھوٹا ہے،لیکن قالب کی اصلاح و فساد قلب کے تابع ہے، لِاَنَّ الْقَلْبَ سُلْطَانُ الْبَدَنِ لَمَّا صَلُحَ السُّلْطَانُ صَلُحَتِ الرَّعِیَّۃُ اس لیے کہ قلب جسم کا بادشاہ ہے، جب بادشاہ صحیح ہو گا تو رعیت بھی صحیح ہو گی۔ تشریح:اِذَا صَلُحَتْ اَیْ تَنَوَّرَتْ بِالْاِیْمَانِ وَالْعِرْفَانِ وَالْاِیْقَانِیعنی جب قلب منور ہوجائے نورِ ایمان،نورِعرفان اورنورِایقان سے۔صَلُحَ الْجَسَدُ اَیْ اَعْضَاءُہٗ کُلُّہٗ بِالْاَعْمَالِ وَ الْاَخْلَا قِ وَالْاَحْوَالِ یعنی جسم کے اعضاء سے اعمالِ صالحہ،اخلاقِ حمیدہ اور احوالِ جمیلہ ظاہر ہوں گے۔وَ اِذَا فَسَدَتْ اَیْ اِذَاتَلَفَتْ وَاَظْلَمَتْ بِالْجُحُوْدِ وَالشَّکِّ وَ الْکُفْرَانِیعنی جب قلب برباد ہو جائے ظلمتوں سے بسبب جحود اور شک اور کفر کے۔ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ اَیْ بِالْفُجُوْرِ وَالْعِصْیَانِ فَعَلَی الْمُکَلَّفِ اَنْ یَّقْبَلَ عَلَیْہَا وَیَمْنَعَہَا عَنِ الْاِنْہِمَاکِ فِی الشَّھَوَاتِ حَتّٰی لَایُبَادِرَ اِلَی الشُّبْھَاتِ وَ لَا یَسْتَعْمِلَ جَوَارِحَہٗ بِاقْتِرَافِ الْمُحَرَّمَاتِیعنی جسم فاسد ہو گا نا فرمانی سے اور گناہوں سے۔ پس مکلف پر یعنی ہر شخص پر واجب ہے کہ قلب کی نگرانی رکھے اور اس کو روک کر رکھے، خواہشاتِ نفسانیہ میں منہمک ہونے سے،یہاںتک کہ شبہاتِ معصیت سے بھی دور رہے اور اس کے جوارح نہ استعمال ہوں ارتکابِ محرمات میں۔اَلَا وَھِیَ اَیْ اَلْمُضْغَۃُالْمَوْصُوْفَۃُ الْقَلْبُ فَھُوَ کَالْمَلِکِ وَ الْاَعْضَاءُ کَالرَّعِیَّۃِ اس لیے کہ قلب مثلِ بادشاہ کے ہے اور اعضا اس کی رعایا ہیں۔ فَاَھَمُّ الْاُمُوْرِ مُرَاعَاتُہٗ پس نہایت اہم اُمور میں سے ہے قلب کی اصلاح اور نگرانی۔