خزائن الحدیث |
|
ہے اور سڑک سے گزر رہا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ مجھے اللہ والا سمجھ کر چندہ دیں، میری خوب خاطر ہو کہ یہ بہت بڑا عاشقِ حق جارہا ہے تو اس کے ہر سُبْحَانَ اللہ کہنے پر گناہ اور وبال لکھا جا رہا ہے کیوں کہ اس کا ذکر اللہ، اللہ کے لیے نہیں ہے، پیٹ اور دنیا اینٹھنے کے لیے ہے۔ اور ایک آدمی اللہ کا حکم سمجھ کر اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے امرود بیچ رہا ہے اور وہ سڑک پہ کہہ رہا ہے کہ لے امرود، لے امرود تو اس کو ہر لے امرود کہنے پر سُبْحَانَ اللہ سے زیادہ ثواب لکھا جاتا ہے، کیوں کہ سبحان اللہ مستحب و نفل ہے اور حلال کمائی فرض ہے: طَلَبُ کَسْبِ الْحَلَا لِ فَرِیْضَۃٌۢ بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ؎ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا کہ تمہاری عاشقی ہم تسلیم کرتے ہیں، کیوں کہ یاد وہی کرتا ہے جو عاشق ہوتا ہے مَنْ اَحَبَّ شَیْئًا اَکْثَرَ ذِکْرَہٗ؎ جو کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کا کثرت سے ذکر کرتا ہے۔ جو لوگ کہ حضرت آدم علیہ السلام کی خاص اولا د ہیں، اگر ان سے خطا ہو جاتی ہے تو چین سے نہیں رہتے، چائے نہیں پیتے، مکھن نہیں نگلتے، سموسے نہیں اُڑاتے۔ دو رکعت توبہ کی پڑھ کر سجدہ گاہ کو اپنے آنسوؤں سے تر کرتے ہیں، تڑپ کر مالک کو راضی کرتے ہیں اور اپنے بابا کی میراث رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا کو استعمال کرتے ہیں کیوں کہ حضرت آدم علیہ السلام کا کام اسی سے بنا تھااور آپ کو تاجِ خلافت اسی سے عطا ہوا تھا۔ تو جو حضرت آدم علیہ السلام کی خاص اولاد ہیں، ان سے اگر خطا ہو جاتی ہے تو وہ بھیرَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا کہہ کر روتے ہیں اور جب تک ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز نہیں آ جاتی کہ ہم نے معاف کر دیا، اُس وقت تک چائے اپنے اوپر حرام سمجھتے ہیں، کباب بریانی کو اپنے اوپر حرام سمجھتے ہیں۔ نعمتیں دینے والے کو ناراض کر کے جو نعمتیں ٹھونستا ہے وہ نالائق ہے، بےغیرت ہے۔ شرافتِ بندگی کا تقاضا ہے کہ گناہ کر کے پہلے توبہ کرو، اتنا روؤ کہ آسمان سے آواز بغیر حروف کے دل میں آ جائے کہ ہم نے معاف کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کی آواز حروف کی محتاج نہیں ہے۔ بغیر حروف کے آواز آتی ہے، الہام ہوتا ہے، مضمون کے لیے حروف کی ضرورت نہیں۔ مفہوم آتا ہے پھر وہ اپنے ملفوظ میں پیش کرتا ہے۔ ------------------------------