خزائن الحدیث |
|
اِلٰی مَسْجِدٍ تو مراد یہ نہیں ہوتی کہ صرف مسجد کے دروازے سے واپس آگئے، بلکہ اندر داخلہ مراد ہوتا ہے۔ اسی طرح اِلٰی رَبِّکُمْسے مراد دربارِ خاص میں داخلہ ہے۔ (۳)وَمَکْفَرَۃٌ لِّلسَّیِّئَاتِ اور گناہ مٹا دینے کا ذریعہ ہے۔ (۴)وَمَنْہَاۃٌ عَنِ الْاِثْمِ اور گناہوں سے روکنے کا ذریعہ ہے یعنی سیئاتِ ماضی کو فنا کر دے گی اور مستقبل کے سیئات سے تحفظ کا ذریعہ بنے گی۔ احقر نے یہ تقریرہر دوئی اشرف المدارس کے طلبائے کرام کے اجتماع میں کی تھی۔ حضرت مرشد نا ہردوئی بھی تشریف رکھتے تھے۔ کچھ طلبائے کرام کا حفظ مکمل ہوا تھا، اس کا جلسہ تھا۔ اسی سلسلہ میں عرض کیا تھا کہ آپ حضرات حاملین قرآن تو ہوگئے، لیکن اشرافِ امت ہونے کے لیے حَمَلَۃُ الْقُرْاٰنِ کے بعد فوراً واَصْحَابُ اللَّیْلِفرمایا۔ اس ترتیب اور تقدم و تاخر میں یہ حکمت بھی ہے کہ جو لوگ محض حفظ کر کے اعمال اور اصلاحِ اخلاق اور حضوری مع الحق کی دولت سے غافل رہیں گے تو خلق بھی ان کو اشرافِ امت نہ سمجھے گی۔ چناں چہ آج لوگوں کی نظر میں اہلِ علم کی جو بے قدری ہے اس کا سبب حق تعالیٰ سے رابطہ کی کمزوری ہے اور اس کے نتیجہ میں اعمال و اخلاق کی خرابی دیکھ کر عوام متوحش ہوتے ہیں اور بجائے عزت کے ذلت کی نظر سے دیکھتے ہیں جیسے رس گلہ جس میں رس نہ ہو اس کو جو کھائے گا تھو تھو کرے گا۔ رس گلہ اضافت مقلوبی ہے دراصل گولۂ رس تھا پھر رس گولا ہوا اور بگڑتے بگڑتے رس گلہ ہوگیا۔ پہلے گولا بنایا جاتا ہے پھر اس کو شکر کے قوام میں ڈالا جاتا ہے جس کے بعد وہ رس گلہ ہو جاتا ہے۔ اگر اس کو شکر کے قوام میں نہ ڈالا جائے تو خالی گولا رہے گا اس میں رس نہ ہوگا، جو کھائے گا وہ ناقدری کرے گا، کیوں کہ گولا محض ہے رس غائب ہے ۔یہی حال ہم لوگوں کا ہے کہ ہم کو مخلوق اﷲ کے دردِ محبت کا حامل سمجھتی ہے، لیکن جب قریب سے سابقہ پڑتا ہے تو ہم کو خالی اور صفر پاتی ہے، ہمارے علم و عمل میں فاصلہ دیکھ کر حقیر سمجھتی ہے۔ اس کا سبب یہی ہے کہ ہم ظاہری تعلیم تو حاصل کرلیتے ہیں،مگر اہل اﷲ کی صحبت سے حق تعالیٰ کی محبت کا رس نہیں حاصل کرتے، ورنہ اگر ہمارا دل حاملِ دردِ محبت بھی ہو جائے تو جدھر سے ہم نکلیں گے اس کی خوشبو لوگوں کو مست کر دے گی، ہماری آنکھوں سے حق تعالیٰ کا تعلق جھلکے گا، اﷲ تعالیٰ کی محبت چھلکے گی ؎ تابِ نظر نہیں تھی کسی شیخ و شاب میں ان کی جھلک بھی تھی مری چشمِ پُر آب میں ایک شعر احقر کا اپنا یاد آیا ؎