خزائن الحدیث |
|
کو کافی سمجھتے تھے اور اللہ والوں کی صحبت سے جو دردِ محبت اور آہ و فغاں اور ان علوم پر عمل کی توفیق ملتی ہے جو ہمیں بالغِ منزلِ مولیٰ کرتی ہے اس کی دل میں اہمیت نہ تھی۔ اب زاویۂ نگاہ بدل گیا اور یقین آ گیا کہ مولیٰ افضل ہے علمِ مولیٰ سے،لیکن علمِ مولیٰ بھی ضروری ہے، ورنہ مولیٰ کا راستہ کیسے معلوم ہو گا، اس لیے درس و تدریس بھی ضروری ہے، کچھ علماء ایسے ہونے چاہئیں جن کا علم زبردست ہو، لیکن ان کے علم پر اللہ کی محبت غالب ہو پھر ایسا عالم نورٌ علیٰ نور ہوتا ہے، جس کے علم پر اللہ کی محبت غالب ہو گئی اس کے علم میں چاشنی بڑھ جاتی ہے اور ایک عالَم اُس سے سیراب ہوتا ہے ۔ مدرسہ کے علوم پر اللہ کی محبت کو غالب رکھتا ہے تاکہ عالمِ منزل بالغِ منزل ہوجائے اور یہ نعمت خانقاہوں سےاور اہلِ دل کے سینوں سے ملتی ہے۔ اس کے بعد سید صاحب نے حضرت حکیم الامت سے بیعت کی درخواست کی، لیکن واہ رے حکیم الامت! حضرت نے ان کی اصلاح کے لیے فرمایا کہ میں ابھی آپ کو بیعت نہیں کروں گا۔ آپ کی فلاں فلاں تصنیف میں فلاں فلاں غلطی ہے جو ہمارے اکابرِ اہلسنّت کے مسلک کے خلاف ہے، لہٰذا العلانیۃ بالعلانیۃکے تحت اپنے رسالہ میں ان اغلاط سے اپنا رجوع شایع کریں تو پھر آپ کو بیعت کروں گا۔ یہ سید صاحب کا بہت بڑا امتحان تھا،کیوں کہ اتنے بڑے عالم کو اپنی علمی کوتاہیوں کے اعلان میں جاہ مانع ہوتی ہے، لیکن سید صاحب کے چوٹ لگ چکی تھی، گئے اور اپنے دارالمصنفین کے رسالہ المعارف میں اعلان شایع کیا اور رسالہ لے کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت خوش ہو گئے اور فرمایا ؎ از سلیماں گیر اخلاصِ عمل اگر اخلاص سیکھنا ہے تو سید سلیمان ندوی سے سیکھو۔ اور سید صاحب کو بیعت کر لیا۔ میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جب کوئی غیر عالم کسی اللہ والے سے بیعت ہو کر اللہ اللہ کرتا ہے تو صاحبِ نور ہوتا ہے، لیکن جب کوئی عالم سلسلہ میں داخل ہوتا ہے اور اللہ اللہ کرتا ہے تو نورٌ علیٰ نور ہو جاتا ہے، ایک علم کا نور دوسرے ذکر کا نور۔ سید صاحب نے جب اللہ اللہ کیا اور اللہ کی محبت کا مزہ ملا، نسبت عطا ہوئی، اس وقت کے ان کے اشعار عجیب و غریب ہیں، فرماتے ہیں ؎ نام لیتے ہی نشہ سا چھا گیا ذکر میں تاثیرِ دورِ جام ہے اور نمازِ تہجد کے بارے میں فرمایا ؎