خزائن الحدیث |
|
کے لیے جو علم کو دنیا داری، تن پروری اور اپنی عزت و جاہ کے لیے آلۂ کار بناتے ہیں احادیث میں سخت وعیدیں واردہیں۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِیُجَارِیَ بِہِ الْعُلَمَاءَ اَوْ لِیُمَارِیَ بِہِ السُّفَھَاءَ اَوْ یَصْرِفَ بِہٖ وُجُوْہَ النَّاسِ اِلَیْہِ اَدْخَلَہُ اللہُ النَّارَ؎ یعنی جو اس نیت سے علم حاصل کرے کہ علماء سے فخر کرے یا بے و قوفوں اور جاہلوں سے جھگڑے یا لوگوں کو اس کے ذریعہ اپنی طرف متوجہ کرے تاکہ لوگ اس کی تعظیم کریں، مراد یہ ہے کہ علم سے اس کی غرض طلبِ دنیا، شہرت و مال و جاہ وغیرہ ہو اس کے لیے جہنم کی و عید ہے۔اور ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے: مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِّمَّا یُبْتَغٰی بِہٖ وَجْہُ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ لَا یَتَعَلَّمُہٗ اِلَّا لِیُصِیْبَ بِہٖ عَرَضًا مِّنَ الدُّنْیَا لَمْ یَجِدْ عَرَفَ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَعْنِیْ رِیْحَھَا؎ یعنی قرآن و حدیث کا جو علم اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے سیکھا جاتا ہے، اس علم کو اگر کوئی اس لیے سیکھتا ہے کہ دنیا کا مال و متاع حاصل کرے، تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایسا شخص جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔ اس لیے تحصیلِ علومِ دینیہ کے لیےتصحیحِ نیت اور اخلاص انتہائی ضروری ہے۔ اگر یہ حاصل نہیں تو علم اس کے لیے وبال ہے اور اخلاص بغیر اللہ والوں کی صحبت کے نہیں ملتا۔ بڑے سے بڑا عالم بھی اگر اللہ والوں سے مستغنی ہو گا تو اس کا علم اس کو نفس کی قید سے آزاد نہیں کرا سکتا، اس کے نورِ علم پر نفس کے اندھیرے ہوں گے، جس سے اس کا علم نہ خود اس کے لیے مفید ہو گا نہ اُمت کے لیے مفید ہو گا۔ مولانا سید سلیمان ندوی پر پہلے منطق و فلسفہ اور علومِ ظاہرہ کا غلبہ تھا، اب عشقِ الٰہی کا غلبہ ہو گیا، علم درجۂ ثانوی ہو گیا اور عشقِ مولیٰ درجۂ اولیں ہو گیا یعنی جو علم مدرسوں میں عالمِ منزلِ مولیٰ کرتا ہے، پہلے اس ------------------------------