خزائن الحدیث |
|
وَلٰکِنَّہُ الرَّجُلُ یَصُوْمُ وَ یَتَصَدَّقُ وَ یُصَلِّیْیہ روزہ رکھتے ہیں، صدقہ کرتے ہیںاورنماز پڑھتے ہیں، لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں کہ اَنْ لَّایُتَقَبَّلَ مِنْہُ معلوم نہیں کہ قبول بھی ہے یا نہیں؟ دیکھیے نصِ قرآنی سے یہ علاج ہو رہا ہے، اللہ تعالیٰ علاج فرما رہے ہیں، قیامت تک کے لیے یہ سبق مل گیا کہ عمل کرنے کے بعد دل میں ڈر آنا چاہیے کہ معلوم نہیں قبول ہے یا نہیں۔ اور اگر تسبیحات سے، تہجد سے، چلّے لگانے سے پیٹ میں اور بھی زیادہ تکبر کے پلے پیدا ہو جائیں تو بتاؤ!یہ چلّے قبول ہوں گے؟ رائے ونڈ میں اکابرِ تبلیغ سے بھی یہ بات سنی کہ جس عمل کے بعد اکڑ آ جائے تو سمجھ لو قبول نہیں ہوا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام سے بڑھ کر کس کا اخلاص ہو سکتا ہے کہ اللہ کا گھر بنایا، لیکن کعبہ بنانے کے بعد اکڑ نہیں آئی کہ ہم نے اللہ کا گھر بنایا ہے، اپنے اخلاص پر ناز نہیں کیا کہ اب تو قبول کرنا ہی پڑے گا، بلکہ گڑ گڑا رہے ہیں۔رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ کہ اے خدا! ازراہِ کرم قبول فرما لیجیے۔ علامہ آلوسی السید محمود بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں وَ فِی اخْتِیَارِ صِیْغَۃِ التَّفَعُّلِ اعْتِرَافٌ بِۢالْقُصُوْرِ’’تَقَبُّلْ‘‘ بابِ تفعل سے ہے اور تفعل میں خاصیت’’تکلف‘‘ کی ہے، پس تقبل کہنا اپنے عجز و قصور کا اعتراف ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اے خدا! ہماری تعمیر اس قابل نہیں ہے کہ آپ قبول فرمائیں، لیکن آپ بہ تکلف قبول فرما لیجیے، ہمیں حق نہیں پہنچتا۔ آپ ازراہِ کرم اور ازراہِ رحمت قبول فرما لیجیے۔ اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ یعنی سَمِیْعٌ بِۢدَعْوَاتِنَا وَعَلِیْمٌ بِۢنِیَّاتِنَاآپ ہماری دعاکو سن رہے ہیں اور ہماری نیت سے با خبر ہیں کہ ہم نے آپ ہی کے لیے یہ تعمیر کی ہے۔ دونوں نبیوں کی یہ دعا قیامت تک کے لیے ہمارے واسطے ہدایت ہے۔ دونوں پیغمبروں کا یہ عمل اللہ نے قرآن میں نازل کر کے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اُمت کو آگاہ فرما دیا کہ جب کبھی نیک عمل کی توفیق ہوجائے، چاہے حج کی توفیق ہو، عمرہ کی توفیق ہو، تلاوت کی توفیق ہو، تہجد کی توفیق ہو، روزوں کی توفیق ہو، جس نیک عمل کی بھی توفیق ہو جائے تو اکڑو مت، ناز نہ آئے کہ اوہ! میں نے آج اتنا کر لیا، آج میں نے اتنی تلاوت کر لی، آج میں نے اتنے نوافل پڑھ لیے،آج میں اللہ کا مقرب ہو گیا، باقی سب لوگ تو غافل اور نافرمان ہیں اور اگر کچھ عبادت گزار ہیں بھی تو ایسے کہاں جیسا میں ہوں۔ بس جہاں یہ (میں) آئی تو سمجھ لو کہ وہ بکری ہو گیا۔ وہ بھی میں میں کرتی ہے۔ یہ میں ہی تو انسان کو تباہ کر دیتی ہے۔