خزائن الحدیث |
|
ترجمہ:و ہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ایک ذرہ برابر بڑائی ہو گی، ایک صحابی نے عرض کیا کہ ایک شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کے جوتے اچھے ہوں(کیا یہ بھی کبر ہے؟) تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک اﷲ تعالیٰ جمیل ہیں اور جمال کو پسند کرتے ہیں۔ کبر (کی حقیقت) حق بات کو قبول نہ کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔ دین پر استقامت اور اعمال کی بقاء کے لیے اہل اللہ کی صحبت اتنی ضروری ہے کہ حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ بانئ تبلیغی جماعت فرماتے ہیں کہ میں جب دین کی محنت کے لیے جاتا ہوں تو مخلوق میں اختلاط اور زیادہ میل جول سے نفس میں کچھ کثافت اور گندگی سی آ جاتی ہے اس کو دور کرنے کے لیے میں اہل اللہ کی خانقاہوں میں جاتا ہوں تو دل مُجلّٰی ہو جاتا ہے۔ جیسے موٹر کار طویل سفر پر جاتی ہے تو پرزوں میں کچھ میل کچیل لگ جاتا ہے لہٰذا اس کی ٹیوننگ کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور صفائی کے لیے کار کو کار خانے میں جس کو ورکشاپ کہتے ہیں بھیجا جاتا ہے۔ اسی طرح دل کی ٹیوننگ کی بھی ضرورت ہوتی ہے،جس کی ورکشاپ خانقاہیں ہیں، کیوں کہ نفس چور ہے، اس میں خفیہ طریقہ سے کچھ بڑائی، کچھ دِکھاوا آ جاتا ہے۔ جن کا مشایخ اور علماء سے تعلق نہیں ہوتا، ان کی گفتگو سے پتا چل جاتا ہے اور ان کی زبان سے بڑائی کی باتیں نکلنا شروع ہو جاتی ہیں اور انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ میرے دل میں کیا مرض پیدا ہو گیا۔ اس لیے چاہے کوئی مدرس ہو، معلم ہو، مبلغ ہو، مصنف ہو، تزکیۂ نفس بغیر اہل اللہ کی صحبت اور تعلق کے نہیں ہوتا۔ ایک صاحب نے خود بتایا کہ میں اللہ کے فضل سے دین کے لیے کچھ وقت لگا کر جب کراچی واپس آیا، تو مجھے تمام لوگ نہایت حقیر معلوم ہوئے کہ یہ سب غافل ہیں، انہیں دین کی فکر نہیں، علماء پنکھوں میں بیٹھ کر بخاری شریف پڑھا رہے ہیں اور ہم لوگ دریائے سندھ کے کنارے جنگلوں میں جا کر دین پھیلا رہے ہیں، لیکن وہ ایک اللہ والے سے بیعت تھے،انہوں نے اپنے شیخ کو اپنا یہ حال بتایا کہ مجھے تو بڑے بڑے علماء تک شیطان نظر آرہے ہیں۔ ان بزرگ نے کہا کہ سب سے بڑے شیطان تو تم ہو،کیوں کہ تمہارے دل میں تکبر پیدا ہو گیا، تم نے اپنے نفس کو مٹانا نہیں سیکھا۔ اسلام تو یہ کہتا ہے کہ تمام مسلمانوں کو اپنے سے بہتر سمجھو اور اپنے کو سب سے کمتر سمجھو، بلکہ جب تک خاتمہ ایمان پر نہیں ہو جاتا خود کو کافروں سے اور جانوروں سے بھی کمتر سمجھو اور تمہارا حال اتنا خراب ہو گیا کہ عام مسلمان تو کجا، تم علماء کو جو وارثین انبیاء ہیں، حقیر سمجھ رہے ہو۔ ان بزرگ نے فرمایا کہ حدیث شریف میں ہے لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ ------------------------------