خزائن الحدیث |
|
ترجمہ: لذّات کو سرد کرنے والی چیز کو کثرت سے یاد کرو یعنی موت کو۔ موت کا کثرت سے یاد کرنا دل کو دنیا سے اُچاٹ کرتا ہے اور یہی ہدایت کا بڑا سبب اور ذریعہ ہوتاہے۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ موت جو لذات کو سرد کرنے والی ہے اس کو کثرت سے یاد کرو۔ پس موت کا اتنا تصور کرو کہ اس کی وحشت لذت سے بدل جائے اور اپنے اصلی وطن کے ذکر سے لذت ملنی ہی چاہیے۔ مومن کے لیے موت دراصل محبوبِ حقیقی کی طرف سے دعوتِ ملاقات کا پیغام ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں جو آخرت کے حالات دیکھتا ہوں، اگر تم کو معلوم ہوجائیں تو ہنسنا کم کر دو اور رونے کی کثرت کر دو۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کاش! میں کوئی درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا۔ کبھی فرماتے کہ کاش! میں کوئی گھاس ہوتا کہ جانور اس کو کھالیتے۔کبھی فرماتے کہ کاش! میں کسی مومن کے بدن کا بال ہوتا ۔ ایک مرتبہ ایک باغ میں تشریف لے گئے، ایک جانور کو دیکھ کر ٹھنڈا سانس بھرا اور فرمایا کہ تو کس قدر مزہ میں ہے کہ کھاتا ہے، پیتا ہے اور درختوں کے سائے میں پھرتا ہے اور آخرت میں تجھ پر کوئی حساب کتاب نہیں، کاش! ابو بکر بھی تجھ جیسا ہوتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کاش! مجھے میری ماں نے جنا ہی نہ ہوتا۔ بسا اوقات ایک تنکا ہاتھ میں لیتے اور فرماتے: کاش! میںیہ تنکا ہوتا۔ تہجد کی نماز میں بعض مرتبہ روتے روتے گر جاتے اور بیمار ہوجاتے۔ ایک بار صبح کی نماز میں جب اس آیت پر پہنچے تو روتے روتے آواز نہ نکلی: اِنَّمَاۤ اَشۡکُوۡا بَثِّیۡ وَ حُزۡنِیۡۤ اِلَی اللہِ؎ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما حق تعالیٰ کے خوف سے اس قدر روتے تھے کہ چہرہ پر آنسوؤں کے بہنے سے دو نالیاں سی بن گئی تھیں۔ نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک مرتبہ نماز کے لیے تشریف لائے تو ایک جماعت کو دیکھا کہ کِھلکھلاکر ہنس رہی تھی اور ہنسی کی وجہ سے دانت کھل رہے تھے،آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر موت کو کثرت سے یاد کرو تو جو حالت میں دیکھ رہا ہوں وہ پیدا نہ ہو۔لہٰذا موت کو کثرت ------------------------------