حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
7 ماہ و سال، سن ہجری و عیسوی اور ان میں تطبیق کے لیے حافظ نذر احمد پرنسپل شبلی کالج لاہور کی ’’سیرت مبارکہ کے چند پہلو‘‘ سے استفادہ کیا ہے (حافظ صاحب نے ۱۹۴۱ء سے ۱۹۸۴ء تک کے عرصہ میں کُتبِ سیرت کا مطالعہ کر کے نبوی، ہجری اور عیسوی سنین کے تمام گوشوں پر مکمل تحقیق کی، کیلنڈر کی شکل میں شائع کیا، اور اسے مجلّات(’’قندیل‘‘ لاہور، ’’محدث‘‘ لاہور) اور مستقل کتاب میں بھی شائع کروایا)اس سلسلے میں ’’محدث‘‘ لاہور کے سیرت نمبر اور اسی رسالے میں انتہائی محتاط حوالوں سے مزین مضمون ’’رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ… ماہ و سال کے آئینے میں ‘‘ (مرتبہ عبدالرحمن عزیز الٰہ آبادی) اور اَلنَّبيُّ الخَاتَمُ مولفہ: مولانا مناظر احسن گیلانی ؒسے بھی استفادہ کیا گیا۔ مؤلف کتابِ ہٰذا نے حضور سید الکائناتﷺ کے اعلانِ نبوت سے پہلے کی سیرت کو قلمبند کرنے کی سعادت حاصل کی تو اسے دو حصوں میں تقسیم کیا: 1 بچپن سے بلوغت: اس کاقرآنی نام اَلنَّجْمُ الثَّاقِبُ ’’روشن ستارہ‘‘(حضرت محمدﷺ کا بچپن) ہے، جو آپکے ہاتھوں میں ہے۔ 2 بلوغت تا اعلانِ نبوت: اس کا قرآنی نام حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ (فجر ہونے تک) رکھا۔ جس کا نام(حضرت محمدﷺکا عہدِ شباب )ہے۔ وہ بھی طبع ہوچکی ہے۔دونوں ناموں کی جدت کے پیش نظر ان کی وضاحت ضروری ہے، جو بڑی ایمان افروز ہے۔ نبی علیہ السلام کی ستارے کے ساتھ نسبت کی خبریں کتب سابقہ میں موجود تھیں ، حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’جس دن سلطانِ دو عالمﷺ اس دنیا میں تشریف لائے اس روز یہودی عالم نے کہا: آج وہ اَحْمَدْ کا ستارہ طلوع ہو گیا جس کے طلوع ہونے کے ساتھ وہ پیدا ہوگا (وہ آج رات جلوہ افروز ہو گیا) اس ستارے کا نام الغَفَر ہے جو تین یا چھ ستاروں پرمشتمل ہے۔(۱) یہ ہزاروں سال پہلے کا آسمانی کلام ہے، جب قرآن اُترا، تو اس میں بھی آپﷺ کو ستارہ کہا گیا۔ امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوٰی(۲)میں اَلنَّجْم سے مراد حضرت محمدﷺ اور اِذَا ھَوَیٰ سے وہ منظر مراد ہے جب حضورﷺ معراج سے اُتر رہے تھے اور وَالسَّمَاء وَالطَّارِقِ٭ وَمَا اَدْرٰکَ مَا الطَّارِق٭ اَلنَّجْمُ الثَّاقِبُ(۳) ’’قسم ہے آسمان اور رات کو آنے والے کی اور آپﷺ کیا جانیں ، وہ رات کو آنے والا کون ہے؟ وہ چمکتا ہوا ستارہ ہے‘‘ اور حضورﷺ کو ستارہ اس لیے فرمایا گیا کہ جس طرح ستارے کی روشنی سے لوگ راستہ دیکھتے ہیں ۔ اسی طرح نبی علیہ السلام کے ذریعے لوگوں کو ہدایت (راہنمائی) ملتی ہے۔(۴) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱) دلائل النبوۃ للبیھقی: ۱/۱۰۹، اَلمواھب الدنیہ: ۱/۸۰،۸۷ شرح الزرقانی: ۱/۲۵۳، الخصائص الکبریٰ: ۱/۷۸ (۲)سورہ لنجم:۱ (۳)سورہ الطارق: ۳ (۴) المواھب اللدنیہ: ۱/۴۶۷۰، الشفاء: ۱/۳۴، شرح الشفا: ۱/۸۹، الزرقانی: ۴/۲۸۲