حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
اور مجبوراً حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کو وعدہ پورا کرنا پڑا تھا۔ بالآخر وہ حضرت محمدﷺ کو اس حال میں ساتھ لیے مکہ کی طرف روانہ ہو گئی تھیں کہ حضرت شیما رضی اللہ عنہا روتی رہ گئیں اور چھوٹے بچے حیران و پریشان کھڑے حلیمہ رضی اللہ عنہا کی سواری کو مکہ کی جانب جاتا ہوا دیکھتے رہ گئے تھے۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا دعائیں کرتی آئی تھیں کہ حضرت محمدﷺ کی خدمت کا موقع ایک بار پھر ملے، ادھر مکہ میں ننھے محمدﷺ کی زیارت کے لیے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کا دل بے تاب تھا، حضرت عبدالمطلب آنکھیں ٹھنڈی کرنے کو منتظر تھے اور خاندان بنو ہاشم کے بچے ،بوڑھے اور جوان حضرت محمدﷺ کی ایک جھلک دیکھنے کو ترستے تھے، بالآخر وہ دن آیا کہ اماں حلیمہ رضی اللہ عنہا کائنات کے سب سے متبرک و خوبرو بچے کو گود میں لیے آمنہ کے دروازے پر پہنچی اور دستک دی اور ابھی حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے جی بھر کے دیکھا بھی نہ تھا کہ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا نے واپسی کی درخواست پیش کر دی، اُدھر مکہ کی آب و ہوا ایسی ناموافق اور وبائی امراض سے آلودہ ہو چکی تھی جس کی وجہ سے خود ماں کے دل میں حلیمہ رضی اللہ عنہا کی تجویز نے جگہ پائی اور دادا بھی مان گئے۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ہم مسلسل حضرت آمنہ سے پراصرار گزارش کرتے رہے کہ پیارے محمدﷺ کو ہمارے ساتھ بھیج دیجیے، حتیٰ کہ سیّدہ آمنہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میرے بیٹے کو جلد لے جائو، مجھے تمہاری یہ بات سمجھ آ رہی ہے کہ ناموافق فضا میں بچے کو رکھنا درست نہیں ہے۔(۱)نورِ مجسم ﷺ کی بنو سعد واپسی: جس وقت سیدہ حلیمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا سے سنا کہ بچہ کو دوبارہ بنوسعد میں لے جانے کی اجازت ہے، ان کا دل باغ باغ ہو گیا، آنکھیں چمک اُٹھیں ، چہرہ دمک اُٹھا اور وہ حضرت محمد کریمﷺ کو لے کر روانہ ہونے لگیں تو دادا، چچے اور پھوپھیاں ----------------------- (۱) سیرۃ ابن ہشام: ۱/۱۶۲