حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
حکومتِ اُردن نے اس جگہ کی حفاظت کے لیے اس کے گرد احاطہ بنا دیا ہے، جب یہ درخت پہلی بار شہزادہ غازی کو دریافت ہوا اس وقت وہ زندہ ضرور تھا، اور ایک زندہ درخت کی پوری ہیئت بھی برقرار تھی لیکن شاخین کچھ سوکھی ہوئی تھیں ، اس کے بعد اسے پانی دینے کا اہتمام کیا گیا جس کے بعد وہ بالکل تروتازہ اور سرسبز ہوگیا۔غیر معمولی درخت مولانا عثمانی صاحب نے شہزادہ غازی کے ساتھ جاکر اس درخت کودیکھاہے وہ لکھتے ہیں : یہ بات وہاں جا کر بالکل واضح طور پر نظر آتی ہے کہ یہ کوئی غیر معمولی درخت ہے۔ اس لیے کہ سینکڑوں مربع کلومیٹر دور تک نہ کسی درخت کا نام و نشان ہے او رنہ وہاں تک پانی پہنچنے کا کوئی راستہ نظر آتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ بات کوئی بعید یا تعجب خیز نہیں ہے کہ اس درخت سے چونکہ حضور نبی اکرم ﷺ کا ایک معجزہ ظاہر ہوا تھا اور اسکی بناء پر بحیرا راہب کو آپﷺ میں خاتم الانبیاءﷺ کی علامتیں نظر آئی تھیں ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے معجزاتی طور پر باقی رکھا ہوا ہو، بالخصوص جبکہ اس درخت سے تقریبا سو میٹر کے فاصلے پر ایک عمارت کے کھنڈر بھی موجود ہیں جن کا رخ اسی درخت کی طرف ہے۔ جہاں تک اس کے محلِ وقوع کا تعلق ہے، سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ بحیرا سے ملاقات کا واقعہ شام کے شہر بصریٰ میں پیش آیا تھا اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ابن عساکرؒ سے نقل کیا ہے کہ بحیراراہب ایک بستی میں رہتا تھا جس کا نام ’’کفر‘‘تھا اور وہ بستی بصریٰ شہر سے چھ میل دور تھی۔(۱) اگر یہی بات درست مانی جائے کہ بحیرا کی بستی بصریٰ سے چھ میل دور تھی تو بظاہر اس کا محل وقوع وہ نہیں ہونا چاہیے جو اس درخت کا ہے کیونکہ بصریٰ شہر یہاں سے کافی فاصلے پر شام کی سرحد کے اندر واقع ہے۔ علاقے کے نقشے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ سے قریب ترین بستی ’’اَزرق‘‘ ہے اور اس کے بعد شام (سوریا) کی سرحد آتی ہے، جس کے بعد پہلا شہر بصریٰ --------------------------------- (۱) السیرۃ النبویہ لابنِ کثیر ج ا، ص ۱۴۰