حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
فَدَتُّکَ نَفْسِیْ مَا الَّذِیْ دَھَاکَ؟ ’’میری روح آپﷺ پر قربان جائے کس نے آپ کو ڈرایا ہے؟‘‘ وہ کہنے لگے: خبراً یَا اُمَّاہ! خبر بھی ہے آپ کو اے امی! میں ابھی ابھی کھڑا ہوا تھا اپنے بھائیوں کے ساتھ۔قلب و جگر دھو دیے گئے اور مہر لگا دی گئی: میرے پاس اچانک تین آدمی آئے،ایک کے ہاتھ میں چاندی کا کوزہ تھا، دوسرے کے ہاتھ میں سبز زمرد کا ایک تھال تھا، وہ برف سے بھرا ہوا تھا، انہوں نے مجھے پکڑ لیا اور پہاڑی کی چوٹی پر لے آئے، انہوں نے نہایت ہی نرمی کے ساتھ مجھے لٹا دیا، پھر انہوں نے میرے سینے سے ناف کے نیچے تک پیٹ کوچاک کر دیا۔ میں ان کی طرف دیکھ رہا تھا، مجھے نہ تو پیٹ چیرنے کا احساس ہوا اور نہ ہی کوئی درد ہوا۔ پھر اس شخص نے میرے پیٹ میں ہاتھ ڈال کر اس میں سے آنتیں وغیرہ نکال لیں اور ان کو برف کے ساتھ دھو دیا۔ مگر اس نے بڑی نرمی کے ساتھ دھویا ہے۔ امی! مجھے ذرہ بھی تکلیف نہیں ہوئی، پھر اس نے میری آنتوں کو واپس اپنی جگہ پر رکھ دیا ہے۔ اب دوسرا شخص اُٹھا اس نے پہلے والے سے کہا: آپ اس سے ہٹ جائیے، اللہ نے جو آپ کو اس کے بارے میں حکم دیا تھا، آپ نے وہ کام پورا کر لیا ہے، پھر وہ میرے قریب آ یا اس نے بھی میرے پیٹ میں ہاتھ داخل کیا، میرے دل کو باہر نکال کر چیرا اور اس میں سے ایک سیاہ نکتہ نکالا جو کہ خون سے بھرا ہوا تھا، اسے پھینک دیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے حبیبﷺ! یہ شیطان کا حصہ (تھا جو نکال دیا گیا ہے) پھر اس نے دل کو ایک چیز کے ساتھ بھر دیا، جو اس کے پاس تھی، بعد ازاں اس دل کو اپنی جگہ پر رکھ دیا، پھر اس نے میرے دل پر ایک نور کی مہر لگا دی۔ میں ابھی بھی اپنی رگوں میں اس نور کی ٹھنڈک محسوس کر رہا ہوں … امی!(۱) ---------------------- (۱) دلائل النبوۃ للبیھقی: ۱/۱۴۱، الخصائص الکبریٰ: ۱/۹۴، شرف المصطفیٰ: ۱/۳۷۹، سبل الہدیٰ: ۱/۳۸۹