حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
کتنی ہی باران کے منہ سے نکلا: اے بیٹے! تمہاری شان ہی بڑی ہے۔(۱) یہ مکہ والوں کو تکوینی نظام میں سمجھا جا رہا تھا کہ اللہ کی رحمتوں کا سرچشمہ صرف اور صرف حضرت محمدﷺ کی ذات ہے، جب یہ نبوت کا اعلان کریں گے تو ان کی ہر ادا سے انوارات کے چشمے پھوٹیں گے اور مزید دنیوی فوائد بھی بہت تھوڑے دنوں بعد پوری قوم کو ملنا شروع ہوں گے، یہ نوعمر انصاف قائم کریں گے، جھگڑے مٹائیں گے اور بہت اچھے تاجر اور ایمان دارانہ معاملات رکھنے والے ہوں گے۔ الغرض: برکت کے جتنے مفاہیم ہیں وہ ان کے بیٹے، بھتیجے، بھانجے اور ہم وطن (سیدنا محمد کریمﷺ) کے اعمال و اخلاق میں دیکھے جا سکیں گے۔صبر و شکر و قناعت: آپﷺ نے ننھی سی عمر میں ہی لوگوں کو یہ سبق دیا کہ صرف پانی بھی اگر میسر ہے تو وہ بھی کم نعمت نہیں ہے۔ دنیا ایک مؤمن کے سیر ہونے کی جگہ نہیں ہے۔ اس کی تمام تر خواہشات و ضروریات کو کماحقہ‘ پورا کرنے کے لیے اللہ نے ایک اور جہان بنایا ہے۔ حضرت اُمّ ایمن رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میرے محمدﷺ کبھی صرف پانی پر گزارہ کر لیتے تھے۔ کھانا نہ ملتا تو شکوہ نہ کرتے تھے۔(۲) یہی وہ زندگی کا راز ہے، بلکہ کامیاب حیاتِ انسانی کی کلیدیں ہیں جن سے آزاداقوام ترقی پاتی ہیں ۔ نبی علیہ السلام اپنی معصوم ادائوں سے اسی سبق کی تاسیس رکھ رہے ہیں جس کے متعلق اِصْبِرْ، صَابِرُوْا، اَلصَّابِرِیْنَ، اَلشَّاکِرین، اُشْکُرْ کے قرآنی الفاظ اُترنے والے تھے۔خلوت نشینی و ملن ساری: آپﷺ نے جس نظامِ اخوت کی تاسیس کرنی تھی اسی کی بنیادوں پر آپﷺ کا بچپن استوار نظر آیا۔ کبھی خلوت نشینی اور علیحدگی پسندی دیکھی گئی تو صرف اس لیے کہ ----------------------------- (۱) شرف المصطفیٰﷺ: ۳۵۱ (۲) سبل الہدیٰ: ۲/۱۳۵