حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
مٹی کے اس ڈھیر کی طرف دیکھ رہے تھے جہاں ممتا کی شفقت اور پیار بھری لوریاں ہمیشہ کے لیے زیرِ زمیں چلی گئیں ۔ مکہ یہاں سے ابھی پانچ (بروایت چار) دنوں کے فاصلے پر ہے۔ ابھی نبی علیہ السلام کو کئی دن غم و اندوہ کی تصویر رہنا ہوگا، پھر کہیں وہ اپنے وطن کا منہ دیکھ سکیں گے۔(۱) ابواء عام جگہ تھی ابھی تک اسے کسی نے اہمیت نہ دی تھی، لیکن آج حضرت آمنہ نے اسے تاریخی مقام بنا دیا، حضورﷺ جب صحابہ رحمہم اللہ کے ساتھ یہاں سے گزرتے تو ماں کی یاد، بچپن کا دھڑکتا دل اور ماں سے جدائی کی اُداس شام کا منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا، آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے اور آپﷺ کے جانثاروں کو بھی رونا آ جاتا تھا۔(۲) مکہ میں عبدالمطلب اپنے پوتے اور بہو کا شدت سے انتظار کر رہے تھے، پوتا تو آ گیا، بہو نہ آ سکیں ۔ وہ تو مکہ تک آنا چاہتی تھیں موت نے اجازت نہ دی، اُمّ ِایمن رضی اللہ عنہا اونٹ پہ حضرت محمدﷺ کو بٹھائے جب مکہ پہنچیں تو کہرام مچ گیا۔ بنو ہاشم میں صفِ ماتم بچھ گئی۔حضرت عبدالمُطّلب کی کفالت میں حضورﷺ کے دادا عبدالمطلب حضرت آمنہ کی وفات سے پہلے بھی اس گھر کے کفیل و نگران تھے، لیکن وہ آمنہ کی رعایت میں بہت کم حضورﷺ کو ساتھ رکھتے تھے۔ حضوﷺ کی ماں کی وفات کے بعد وہ گھر کو زیادہ وقت دینے لگے اور جہاں جاتے حضرت محمدﷺ کو اپنے کندھوں پہ اُٹھائے رہتے، مجالس اور پنچایتی فیصلوں میں اپنے پوتے کو ساتھ بٹھاتے، کعبۃ اللہ کی دیوار کے ساتھ ان کی مجلسِ وعظ ہوتی، اس میں بھی وہ ------------------------------ (۱) ذخائر العقبیٰ: ۱/۲۵۸، السیرۃ الحلبیہ: ۱/۱۵۴ (۲) دلائل النبوۃ للبیہقی: ۱/۱۸۹