حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
اہلِ قریش کے مسائل، متعدد بیویوں اور کثیر اولاد کی مصروفیات میں پھنسے ہوئے تھے۔ انہیں معصوم پوتے حضرت محمدﷺ(جسے ماں بھی کم سنی میں چھوڑ گئی تھی)کا بے حد خیال تھا، وہ حضورﷺ کو ’’ابن عبد اللہ ‘‘ نہیں بلکہ اِبْنِیْ (میرے بیٹے) کہہ کر پکارتے ،لیکن ان کی توجہ ماں کی ممتا اور باپ کے پیار کا بدل تو نہ ہو سکتی تھی، عہدِ طفلی کی غم خوار، جو حضورﷺ کے معصوم دل کی رمز شناس تھی، وہ ام ایمن رضی اللہ عنہا برکہ ہی تھیں ، وہی خادمہ بھی تھیں اور ماں بھی، حضورﷺ کو برکہ سے محبت تھی اور آپ ان کو ’’اُمّی بَعْدَ اُمّی‘‘ فرمایا کرتے تھے کہ یہ میری ماں کے بعد میری ماں ہیں ۔ (۱) اس ماحول میں کم سن حضرت محمدﷺ کو اپنی یتیمی کا احساس ہوا ہی ہوگا، جبھی تو خدا نے چالیس سال بعد یاد دلایا، ’’تمہیں یتیم پا کر ہم نے پناہ دی؟‘‘(۲) نو عمرحضرت محمدﷺ کے لیے دادا کا دم غنیمت تھا لیکن پیرانہ سالی میں یہ ٹمٹماتا ہوا چراغ کسے معلوم تھا کب تک روشن رہے گا، دو سال دادا جی نے خوب محبت سے رکھا، وہ اپنے بیٹوں کو کہتے: تمہارے بھتیجے کے متعلق کتبِ سابقہ کو ماننے والے بہت اچھے تصورات رکھتے ہیں ، اس کا خیال رکھا کرو!(۳)حضرت اُمِّ ایمن رضی اللہ عنہا اورخدمتِ حبیبﷺ یہاں آپﷺ کی خادمہ کا تذکرہ اس لیے بے جا نہیں ہے کہ والدہ کے بعد ان کا کردار حضورﷺ کی خدمت کے لیے بہت ہی اہم تھا۔ حضرت اُمّ ایمن رضی اللہ عنہا کا نام برکہ تھا اور القاب اُمُّ الظَّبَّاء، ذَاتُ الْھِجْرَتَیْن (دو ہجرتوں والی) خاَدمَۃُ النَّبِیﷺ (نبیﷺ کی خدمت گار) مَوْلاَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہ ( اللہ کے رسولﷺ کی آزاد کردہ ہیں )(۴) ------------------------------- (۱) شرح الزرقانی ذکر وفا ۃ امّہٖ (۲) والضحیٰ: ۶ (۳) الخصائص الکبریٰ: ۱/۱۳۹ (۴) (تہذیب الکمال، اُمّ ایمن رضی اللہ عنہا )