حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
ساتھ ہیں ۔ پھر میری دایہ (اور قریب آ چکیں ) اور کہا: ہائے یہ یتیم اور بے کس! اپنے ساتھیوں میں تو ہی سب سے کمزور تھا اور اپنی کمزوری کے سبب ہی تو قتل کر دیا گیا۔ یہ سن کر ان فرشتوں نے پھر مجھے سینے سے لگا لیا۔ میرا سر اور پیشانی چوم کر کہنے لگے: اے خوشا کہ آپﷺ یتیموں میں سے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپﷺ کا بڑا اعزاز ہے، آپﷺ جان لیں کہ آپﷺ کے ذریعے اتنی بڑی خیر ظاہر ہونے والی ہے کہ اس سے آپﷺ کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں گی۔(۱)یہ امانت آمنہ کے سپرد کی جائے: حضور نبی محترمﷺ حلیمہ رضی اللہ عنہا کے پاس پانچ، چار یا چھ سال رہے(مختلف اقوال ملتے ہیں ) معجزات (ارہاصات) کے طور پر جو واقعہ اوپر لکھا گیا اس قسم کے حوادثمتعدد بار پیش آئے (جب بھی کوئی واقعہ پیش آتا تو) حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے خاوند اور ان کے ساتھ بعض بہی خواہ بھی آواز ملا کر کہتے: حلیمہ رضی اللہ عنہا ! یہ بچہ اس کی امی کو واپس کر آئو، دادے کی امانت واپس کر دو! کبھی کہتے: اس بچے کو کوئی جن بھوت یا نظر کا مسئلہ ہے اسے مکہ پہنچائو تاکہ اس کا علاج ہو سکے یا فلاں قبیلہ نے حسد کرتے ہوئے کچھ کروا دیا ہے (ان کو وہ برکتیں ہضم نہیں ہو رہیں جو حلیمہ رضی اللہ عنہا اور اس کے خاندان کو ملی ہیں ۔ اس بچہ کی وجہ سے ہمارے گھر پہ جو خیرِ کثیر نازل ہوتی ہے ،وہ بجا لیکن بیت اللہ کے مجاورین کی یہ امانت ہے، اس کی حفاظت ضروری ہے) اب اسے واپس بھیج دینا چاہیے۔(۲) لیکن حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا سمجھتی تھیں کہ ان کی گود میں پلنے والی شخصیت بابرکت اور مجسمۂ رحمت ہے۔ ان کا حفاظتی نظام بھی منجانب اللہ جاری ہے اور رہے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ مقررہ مدت بھی پوری ہو رہی تھی، یہودیوں کے ممکنہ حملے کا بھی خطرہ تھا، شق ---------------------- (۱) السیرۃ الحلبیہ ۱/۱۴۵ کے علاوہ المواھب اللدنیہ: ۱/۹۵، سبل الہدی: ۱/۳۸۸، شفا: ۲/۶۸۴، الوفا ۱/۶۶، الخصائص الکبریٰ: ۱/۹۶ میں بھی اس سے ملتا جلتا واقعہ موجود ہے (۲) امتاع الاسماع: ۴/۹۱