حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
اور شام وغیرہ میں معروف ہوچکا تھا، کہ سب نبیوں کے سردار، فاتحِ مکہ، مہاجر مدینہ نبی الانبیاء حضر ت محمّد ﷺ بہت جلد وادی مکّہ میں مبعوث ہونے والے ہیں ۔ (۱) اس کی صرف ایک مثال یہ ہے کہ ان ہی ایام میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کلیسائوں میں تلاشِ حق میں سرگرداں تھے کہ ایک گر جا کے متقی و پرہیز گار پادری نے انہیں وصیت کی:اے بیٹے! اب تم یہ جستجو نہ کرو کہ تمہیں عیسائیت میں حق مل جائے، اس وقت اس نبی کا زمانہ تم سب پہ سایہ فگن ہے جس نے حرم سے مبعوث ہونا ہے پھر اس نے حضور ﷺ کی علامات بتائیں (۲) اس قسم کے بے شمار واقعات مدارسِ یہود اور عیسائی خانقاہوں میں زیرِبحث تھے، جن کی وجہ سے حضورﷺ کی شخصیت ، اسماء و صفات اور خصوصاً عالی نسبی کا شہرہ زبان زدِ عوام و خواص تھا۔عربوں میں شرِیفُ النّسبی کی اہمیّت : عربوں کے ہاں نسب بہت اہمیت رکھتا تھا، انسان تو انسان وہ اونٹ گھوڑوں اور دیگر حیوانات تک میں نسب کا خیال رکھتے تھے، اسی بنیاد پر انسانوں ، قوموں اور قبیلوں سے سلوک و معاملات کرتے تھے ۔ اس زمانے کے یہودو نصاریٰ نے بھی یہ خبرِ صادق مشہور کر رکھی تھی کہ سارے نبی اعلیٰ نسب ہوتے ہیں ۔ حبشہ میں اس وقت عیسائیت کاراج تھا،شاہِ حبشہ نے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ سے نبی مکرم ﷺکی تعلیمات سننے کے باوجود آپﷺ کے حسب و نسب کی تصدیق کی تو اس نے آپ ﷺ کی نبوت کی نہ صرف تصدیق کی بلکہ مہاجرین کو واپس کرنے سے انکار کردیا۔ اس زمانہ کا انسانی مقام ومرتبہ اسی علم الانساب کی بنیاد پر طے ہوتا تھا۔ ابوسفیان کے بیان کے بعد شاہِ حبشہ نے کہا: وَکَذَالِکَ الرُّسُلُ تُبْعَث فِیْ اَحْسَابِ قَوْمِھَا (۳) ---------------------------- (۱) دلائل النّبوۃ للبیھقی: باب نمبر۵۷ (۲) طبقات المحدثین ذکر اسامی الصحابہؓ (۳) صحیح البخاری حدیث نمبر۴۵۵۳