حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
حبشہ میں تسلیم کیے جاتے ہیں ، وہ سات آسمانوں ، جنت اور بیت المقدس کی سیر کر چکے ہیں ، وہ جب چلتے ہیں تو ملائکہ ان کے ساتھ ہوتے ہیں ، ان کے جاں نثار ایسے کہ کسی بادشاہ کو ایسے سپاہی نہ ملے، بنو سعد کی پہاڑی کے دامن میں کھیلنے والے حضرت محمدﷺ اب خطیب ہیں ، سردار ہیں ، رہبر و راہنما ہیں ، پوری دنیا کو فتح کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور جہاں بانی کا یہ کام ان کے غلاموں نے بھی کرنا ہے، وہ اللہ سے ہم کلام ہوتے ہیں اور اللہ ان کی عزت و توقیر، رعب، دبدبہ، محبوبیت اور شان میں دن بدن اضافہ کرتے جا رہے ہیں ۔ اماں حلیمہ رضی اللہ عنہا اس وقت ۸۰ سے زیادہ عمر کی ہو چکی تھیں ۔ حضرت ابوطفیل رضی اللہ عنہ یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے، وہ فرماتے ہیں : میں نے دیکھا ایک خاتون آگے بڑھی آ رہی ہے، حضورﷺ صحابہ رحمہم اللہ میں گوشت تقسیم فرما رہے ہیں (اچانک آپﷺ کی نظر اس عورت کی طرف اُٹھی، آپﷺ نے سب کام چھوڑے اور اُمّی اُمّی ’’میری ماں ، میری ماں ‘‘ کہتے ہوئے آگے بڑھے اور اپنی چادر اماں کے قدموں میں بچھا دی۔ (غزوۂ حنین سے آئے ہوئے ہزاروں مجاہدینِ اسلام یہ منظر دیکھ کر متعجب ہو رہے تھے کہ یہ عورت کون ہے جس کی دربارِ نبوت میں یہ عزت افزائی ہے؟) واقف کاروں سے پوچھا گیا تو جواب ملا: یہ جناب رسولِ اکرمﷺ کی رضاعی ماں ہیں ۔(۱)حضورﷺ حلیمہ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا نے جو کچھ دیکھا اور برکاتِ نبوت سے استفادہ کیا اور غیر معمولی اثرات لیے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ کی خدمت میں وہ آتی رہتی ہوں گی، مکہ مرجعِ خلائق تھا، اس لیے ان کی یہاں حاضری ناممکن نہیں ہو سکتی، وہ کئی بار آئی ہوں گی تاہم تاریخ نویسوں نے تو وہ لکھنا ہوتا ہے جس کا ثبوت ہو۔ --------------------------- (۱)المواھب اللدنیہ: ۱/۵۲۴، الزرقانی: ۱/۲۶۵، الروض الانف ۲/۱۱۵، عیون الاثر: ۱/۴۵، شفاء: ۱/۱۲۸، تاریخ الخمیس ۲/۱۰۹ مغازی الواقدی: ۲/۸۰۶