حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
مورخین لکھتے ہیں : حضورﷺ کی رضاعی والدہ حضرت حلیمہؓ دو دفعہ آپﷺ کی خدمت میں آ سکیں ، غزوۂ حنین سے پہلے اس وقت حاضر ہوئی تھیں ، جب حضورﷺ کی شادی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہو چکی تھی۔ عادت کے مطابق حضرت نبی علیہ السلام نے ان کے گھر کے احوال لیے، بہن بھائیوں کا پوچھا، معاشی مسائل معلوم کیے تو حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی: بیٹے! (اب تم سے کیا چھپانا) ہمارے علاقہ میں قحط پڑا ہوا ہے، لوگ بھوکے رہتے ہیں ، ان کے جانور بھی چارے سے محروم ہیں (حضورﷺ نے یہ سنا تو آپﷺ کا رحیم و کریم دل بھر آیا اور) ان کو اونٹوں اور بکریوں کا ایک ریوڑ عنایت فرمایا۔ اس دن حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ان کے بیٹے( حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ بن الحارث) بھی تھے، جو ایمان لاچکے تھے۔(۱)ابنِ کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس کے بعد کسیدن حضورﷺ کے رضاعی والد بھی حاضرِ خدمت ہوئے، حضورﷺ نے ان کا بھی احترام کیا کہ جس کپڑے پہ حضورﷺ تشریف فرما تھے اس کا ایک کونہ آپﷺ نے اپنے رضاعی والد کے لیے پھیلا دیا تاکہ وہ اس پر بیٹھ جائیں ۔ پھر والدہ حلیمہ رضی اللہ عنہا آئیں تو ان کے لیے چادر بچھائی اور سامنے بٹھایا۔ پھر ان کے رضاعی بھائی آئے، آپﷺ ان کے احترام میں کھڑے ہوئے اور سامنے بٹھایا۔(۲) اس خاندان کو آپﷺ نے نظرانداز نہیں فرمایا ہمیشہ یاد رکھا۔حضرت شیماءؓ درِ نبیﷺ پہ: بنو سعد میں آپﷺ کے جو ایام گزرے، آپﷺ نے زندگی بھر یاد رکھے اور وہاں کے رضاعی رشتہ داروں سے حسنِ سلوک اور میل ملاقات بھی رہی، تاریخ نویسی کے نہ ہونے کی وجہ سے چند واقعات معلوم ہو سکے۔ باقی روزگار زمانہ کی گھٹائوں میں کہیں کھو گئے۔ آپﷺ حارث کو اپنا والد، ان کے بیٹوں کو اپنا بھائی کہتے اور سمجھتے تھے۔ جب --------------------------------------- (۱) شرح الزرقانی: ۱/۲۸۲، الروض الانف: ۲/۱۱۵، عیون الاثر ۱/۴۵، شرح الشفاء: ۱/۲۶۳، تاریخ الخمیس: ۲/۱۰۹ (۲) سیرۃ ابن کثیر: ۳/۶۸۸