حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
یہ واقعہ عام کتابوں میں نہیں ، ان میں آگے آنے والا واقعہ ہے۔ ممکن ہے دوسرے سفر کی داستان ہو تاہم مذکورہ کتابوں کا حصہ ہےسفرِ شام، علاماتِ نبوت اور شجرِ ذی وقار : ۱۲ سال کی عمر میں رسولِ اکرم ﷺ نے شام کا جو سفر فرمایا وہ علاماتِ نبوت اور دیگر مفید معلومات سے معمور ہے، اس مبارک رحلت میں حضور ﷺ نے جس درخت کے نیچے آرام فرمایا اس کے متعلق ان دنوں اخبارات و رسائل اور انٹر نیٹ کی دنیا میں ایک بحث چل نکلی ہے کہ وہ درخت آج بھی موجود ہے یا نہیں ؟ کوئی اس کا انکار کرتا ہے اور کوئی اس شجرِ ذی احترام کو ’’صحابی درخت‘‘ کا نام اس لیے دیتا ہے کہ اس نے حضور ﷺ کی زیارت کی تھی۔ حالانکہ یہ تناور درخت اگر وہی ہے تب بھی اسے صحابی کہنا ایک اسلامی اصطلاح کا بے جا استعمال ہے، صحابی ان انسانوں کو کہتے ہیں ، جنہوں نے حالتِ ایمان میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضری دی اور دوسرے اس واقعہ (ملاقاتِ بحیرا راھب) پر بھی اشکالات کیے جانے لگے ہیں اس لیے ان دونوں اہم مباحث کے حل کے لیے اس محتاط تحریر کامطالعہ مفیدرہے گا۔واقعہ کی استنادی حیثیت: پہلے اس واقعے کا خلاصہ عرض کر دینامناسب ہے، جو حدیث او رسیرت کی مختلف کتابوں میں مختلف طریقے سے بیان ہوا ہے۔ جامع ترمذی میں مضبوط سند کے ساتھ ایک بڑے عالم صحابی (حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ حضور سرورِ کائناتﷺ کی نبوت سے پہلے آپﷺ کے چچا ابو طالب قریش کے کچھ بزرگوں کے ساتھ شام کے سفر پر روانہ ہوئے جبکہ حضور ﷺ بھی جناب ابوطالب کے ساتھ تھے۔(۱) جب شام کے علاقے میں پہنچے تو وہاں ایک عیسائی راہب (کی خانقاہ) کے پاس -------------------------- (۱) محمد بن اسحٰق رحمہ اللہ کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے خود ہی ان کے ساتھ جانے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی