حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
حلیمہ رضی اللہ عنہا : جی میرے بیٹے؟ حضرت محمدﷺ: یہ میرے بھائی ہیں ناں (ضمرہ، عبد اللہ اور بہن شیماء) یہ کہاں چلے جاتے ہیں ، دن کو نظر نہیں آتے (شام کو نظر آتے ہیں ) یہ جاتے کہاں ہیں ؟ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا : (ننھے محمدﷺ کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے) میرے ماں باپ قربان پیارے محمدﷺ پہ (تمہارے بھائی گھر کے پیچھے چراگاہ ہے، وہاں جاتے ہیں اور وہ وہاں ) ہماری بکریاں چراتے ہیں ، وہ بہت صبح منہ اندھیرے نکل جاتے ہیں اور رات گئے لوٹتے ہیں ۔ حضرت محمدﷺ: امی! میں گھر میں اکیلا رہتا ہوں (اس جملے کے ساتھ ہی آپﷺ کی سرمگیں آنکھوں سے آنسو ڈھلک پڑے اور سیاہ پلکوں سے موتیوں کی طرح چھن چھن کر نرم، سرخی مائل رُخساروں پہ بہہ کر بنو سعد کی زمین کو سیراب کرنے لگے اور آپﷺ روتے ہوئے بمشکل یہ کہہ پائے کہ) میں اکیلا یہاں کیا کر وں ؟ مجھے بھی ان کے ساتھ بھیجاکریں حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا : (بچے کے حوصلے اور ہمت کی داد دیتے ہوئے) پیارے محمدﷺ! تم پسند کرتے ہو کہ ان کے ساتھ جائو؟ حضرت محمدﷺ: جی امی جی (میں کل جائوں گا) حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا : (دوسرے دن) آئو میرا بچہ! قریب بلایا، نہلایا دھلایا، تیل لگایا۔ خوبصورت کرتہ زیبِ تن کروایا، گلے میں تعویذ وغیرہ لٹکایا (مکمل تیاری کے بعد حضرت محمدﷺ نے) اپنے ہاتھ میں عصا لیا اور بھائیوں کے ساتھ خوشی خوشی روانہ ہو گئے۔ وہاں کھیلتے، کودتے، تیراندازی بھی کرتے اور روزانہ ان بچوں کے ساتھ شوق سے جاتے اور شام کو (جب گھر واپس) آتے تھے تو مسکراتے ہوئے گھر میں داخل ہوتے۔(۱)خود شناسی و احساسِ سیادت: نو عمر حضرت محمدﷺ کو ابھی بتایا نہیں گیا کہ آپﷺ صرف اس قوم کے نہیں اقوامِ عالم کے سردار ہیں ۔ خود اپنی ذات کو آپﷺ نے بچپن میں پہچانا کہ آپﷺ کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ صحنِ کعبہ میں بارہا دیکھا گیا کہ شاہِ عرب حضرت عبدالمطلب کے فرشی تخت پر آپﷺ بے جھجک بیٹھتے تو دادا کہتے: اسے معلوم ہے یہ کون ہے؟(۲) اسی طرح ایک دن جب مکہ سے باہر نرم زمین پر ابوطالب کی فرشی نشست پر گدا رکھ کر اسے دوہرا کر کے رکھ دیا گیا (کسی کو جرأت نہ تھی سردارِ مکہ کی جائے نشست پہ بیٹھے، سب منتظر تھے کہ ابوطالب آئیں تو اس پہ بیٹھیں ) ان سے پہلے نبی علیہ السلام تشریف لائے اور مسند درست کر کے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ ابو طالب آئے تو (لوگ ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ شاید بھتیجے کی اس جرأت پر ناراض ہوں ، لیکن انھوں نے مسکرا کر) فرمایا: میرا بھتیجا (یوں ہی سردار کی مسند پہ نہیں بیٹھ گیا، وہ) جانتا ہے کہ یہ مقامِ عزت اسی کا ہے۔(۳) -------------------------------- (۱) تاریخ دمشق: ۳/۴۷۴ الخصائص الکبریٰ: ۱/۹۳، تاریخ الخمیس: ۱/۲۲۶، سبل الہدیٰ: ۱/۳۸۸، عذب الکلام: ۱/۱۹۵ (۲) امتاع الاسماع: ۴/۹۵ (۳) الخصائص الکبریٰ: ۱/۱۴۱