حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
یہ دونوں واقعات شانِ رسالت مآبﷺ کے مرتبہ و مقام کے پیشِ نظر بعید نہیں ہیں ۔ تاہم ایک کتاب کے علاوہ مؤلف کو کہیں نہ مل سکے۔رحمتیں بے کراں ، برکتیں بے گماں : اللہ کریم و رحیم ہے۔ اس نے حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کی طرح لاتعداد انسانوں کو حضورﷺ کی محبت کے طفیل نوازا اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ ایک دن گھر سے باہر صحن میں بیٹھے میاں بیوی (حارث و حلیمہ)کو حضورﷺ کی برکات یاد آئیں ۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے شوہر حضرت حارث رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: حلیمہ! جب یہ (محمدﷺ) ہمارے ہاں تشریف لائے، اس دن ہمارے پاس دس بکریاں تھیں ، آج (ماشاء اللہ ) تین سو بکریوں کا ریوڑ ہے۔ یہ سب اس عظیم (مہمان) لڑکے کی برکات ہیں ۔حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہم نے (اور بھی بچے دیکھے اور پالے ہیں لیکن ہمارے محمدﷺ تو نرالے ہیں ، اس طرح) برکتوں والا کوئی بچہ ہم نے نہیں دیکھا۔ اگر ہم اسے (اس خوف سے) واپس کرتے ہیں (کہ اس قدر حسین و جمیل صاحب صفات بچے کو نظر نہ لگ جائے، کوئی حاسد یا یہودی اسے تکلیف نہ پہنچا دے) تو ہماری عزت بھی نہیں رہتی (اور برکات سے محرومی بھی ہوتی ہے) سچ تو یہ ہے کہ جو انوارات و نوازشات ہمیں اس کے ذریعے ملی ہیں وہ ہم لوگوں کے سامنے بیان بھی نہیں کر سکتے۔(۱) یہ وہ سامانِ دنیا ہے جس کا ذکر یہ دونوں کر رہے تھے، اس کے مقابلے میں یہ سامان کچھ بھی نہیں جو اس انسان کو آخرت میں ملتا ہے اور ملے گا جو اللہ نے اپنے محبوبﷺ سے محبت اور ان کی اطاعت کرنے والوں کے لیے رکھا ہے۔ حرفِ آخر ہے کہ حضورﷺ کے تعلق سے ملنے والی نہ رحمتوں کا حساب کیا جا سکتا ہے اور نہ برکتوں کو گنا جا سکتا ہے۔محمد ﷺ بھائی کو کوئی لے گیا: حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: آپﷺ روزانہ خوشی خوشی بھائیوں کے ساتھ پہاڑی پہ جاتے ، گلہ بانی میں حصہ لیتے اور شام کو گھر آ جاتے۔ ایک دن بکری کے بچوں ----------------------- (۱) امتاع الاسماع: ۴/۹۱