حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
فروکش ہوئے بادشاہ نے جو خط اس عالم کو دیا اس کے اندر مندرجہ ذیل اشعار تھے جو حضرت تبع نے حضورﷺ کے لیے لکھے تھے۔ جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس شہر میں ولادتِ رسولﷺ سے پہلے ہی ایمان کی شمع جلا دی گئی تھی۔ اشعار یہ ہیں : شَھِدْتُّ عَلیٰ اَحْمَدَ اَنَّہ‘ رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰہِ بَارِیْ النَّسَمِ ’’میں احمدﷺ کے متعلق گواہی دیتا ہوں کہ وہ خالقِ کائنات کے(محبوب اور آخری) رسولﷺ ہیں ۔‘‘ فَلَوْ مُدَّ عُمْریْ اِلیٰ عُمْرِہٖ لَکُنْتُ وَزِیْرًا لَّہ‘ وَابْنُ عَمِّ ’’اگر میری عمر ان کے زمانہ تک دراز کر دی جاتی تو(اسلام کی سربلندی و اشاعت) میں ان کا وزیر اور ابن عم (مددگار) ہوتا۔‘‘(۱) اعلانِ نبوت کے بعد حضورﷺ نے اس مکان میں فروکش ہونا تھا،اسی لیے منجانب اللہ یہ محفوظ چلا آرہا تھا،یہ مکان مدینہ کے صدر دروازے کے قریب تھا۔ حضرت آمنہ کی سواری اس کے پاس سے گزر گئی۔ اس سے آگے بنو نجار اور زہری قبیلہ (حضورﷺ کے ننہیال کے) گھر تھے جیسے ہی سہ رکنی قافلہ پہنچا، ہر طرف سے مَرْحَباً مَرْحَباً کی آوازیں آنا شروع ہوئیں ۔ عورتیں حضرت آمنہ و برکہ (حضرت ام ِایمنؓ) کی طرف آئیں نو عمر لڑکیاں پانچ چھ سالہ ننھے محمد(ﷺ) کی بلائیں لینے لگیں ۔ننھے محمدﷺ اور اہلِ کتاب کی آمد: آپﷺ کی آ مد کی خبر آناً فاناً پورے شہر میں پھیل گئی۔ اہلِ کتاب کے معبد خانوں ، خانقاہوں اور مدارس میں جب یہ آواز پہنچی کہ ’’وادیٔ ابراہیم‘‘ (مکۃ المکرمہ) ----------------------- (۱) شرح الزرقانی: ۲/۱۵۰، الروض الانف: ۱/۸۴، شرح الشفاء: ۱/۷۴۱ الاکتفاء: ۱/۶۲، سیرۃ ابن کثیر ۱/۱۸