حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
یَارَبِّ! رُدَّ اِلَیَّ رَاکِبِیْ مُحَمَّدًا۔ ’’اے میرے اللہ ! میرے شہسوار محمد ﷺ کو واپس بھیج دے۔ ‘‘ یَا رَبِّ رُدَّہٗ وَاصْنَعْ عِنْدی یَدًا۔ ’’اے میرے پروردگار! محمدﷺ کو واپس کرکے مجھ پر احسانِ عظیم فرما دے۔ ‘‘ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ انہوں نے اپنے شہسوار(حضرت محمدﷺ ) کو آتے دیکھا تو عبدالمطلب کی جان میں جان آئی حضرت محمدﷺ سے گلے ملے اور کہا: بیٹا! میں تمہاری وجہ سے بڑا پریشان ہوگیا تھا اب میں کبھی تمہیں اپنے سے جدا نہ کروں گا۔ حضرت کندیربن سعید رضی اللہ عنہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں بھی ان دنوں حج کے لیے گیا ہوا تھا، میں نے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ: اس لڑکے کو جہاں کہیں کسی بھی مقصد کے لیے بھیج دیا جائے یہ کامیاب ہی ہوتا ہے کسی کو یہ امید نہیں ہوتی کہ کسی کام میں اپنے بڑوں کی امیدوں کے خلاف کرے گا۔(۱) آٹھ سال کی عمر میں خاندان بھر کی توجہات اور ان کی خوش فہمیوں کی لاج رکھنا ایک ایسی با وقار شخصیت سے ہی ممکن ہے جس کے نقوشِ قدم کو ہر پیر و جواں کے لیے راہنما بنانا مقصود تھا۔ اس نو عمر نے جس طرح دادا جی کا اعتماد بحال رکھا ایسے ہی چچا ابو طالب کو اس وقت مایوس نہ ہونے دیا، جب ان کو آپ ﷺ کے تعاون کی شدید ضرورت تھی اور انہوں نے آپ ﷺ کو ملکِ شام بغرضِ تجارت جانے کے لیے کہا تو آپ ﷺ نے ان کی امیدوں کو پورا فرمایا۔(۲)ابوطالب (عبد مناف) کو عبدالمطلب کی وصیت: عبدالمطلب اب ضعیف العمر تھے، موجودہ قحط سالی نے ان کی صحت کو بھی شدید ------------------ (۱) عیون الاثر: ۱/ ۴۸ (۲) الزرقانی: ۱/ ۳۱۰