حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
ہے، بصریٰ یہاں سے کتنا دور ہے؟ اس کی مجھے تحقیق نہیں ہوسکی لیکن اتنی بات واضح ہے کہ یہ فاصلہ چھ میل سے زیادہ ہے، البتہ بصرٰی چونکہ اس وقت بہت بڑا شہر تھا، اس لیے یہ امکان موجود ہے کہ ’’بصریٰ‘‘ کا لفظ صرف اس شہر کے لیے نہیں بلکہ اس کے مضافات میں ایک بڑے علاقے کے لیے بولا جاتا ہے جس میں اَزرق اوریہ جگہ بھی شامل ہے۔خلاصۂ کلام: تاہم مندرجہ ذیل علامتیں اس دریافت کے حق میں جاتی ہیں : 1 یہ جگہ اسی شاہراہ کے قریب واقع ہے جو اس زمانے میں تجارتی قافلے حجاز سے شام جانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ 2 یہ شمال مشرق کی اسی سمت میں واقع ہے جہاں بصریٰ کی سمت ہے۔ 3 اس کے اور بصریٰ کے درمیان کوئی بڑا شہر حائل نہیں ہے۔ا زرق ایک چھوٹی بستی ہے۔ 4 علاقے کے لوگوں میں یہ بات شہرت یا تواتر کی حد تک معروف ہے کہ یہ درخت وہی ہے جس کے نیچے حضورﷺ تشریف فرما ہوئے تھے اور ان معاملات میں تسلسل بھی مضبوط دلیل سمجھی جاتی ہے۔ 5 اس بے آب و گیاہ صحرا میں اس درخت کا زندہ رہنا یقینا ایک غیرمعمولی واقعہ ہے۔ 6 اسی درخت کے قریب ایک پرانی خانقاہ کے کھنڈر بھی اب تک موجود ہیں ۔ 7 شہزادہ غازی کو قدیم و ثائق میں اس جگہ کی جو نشاندہی ہوئی وہ اس دریافت سے مطابقت رکھتی ہے۔ 8 درخت کی دور تک پھیلی ہوئی جڑیں اس کی قدامت کی واضح علامت ہیں ۔ ان وجوہ سے مکمل یقین تو نہیں ہو سکتا لیکن یہ قوی احتمال ضرور قائم ہوتا ہے کہ یہ وہی درخت ہوگا اور یہ قوی احتمال بھی ایک محبت کرنے والے کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے کافی ہے۔ چنانچہ ہم نے اس درخت کی زیارت کی سعادت حاصل کی۔ یہ ایک پستے کا درخت ہے اور شہزادہ غازی نے بتایا کہ اس پر اب بھی پستہ آتا ہے اور میں نے کھایا بھی ہے۔ درخت کی چھائوں بھی بڑی خوشگوار ہے۔ چشم تصور نے یہاں جب محبوب دل نوازﷺ کو جلوہ افروز دیکھا، اس نے اس چھائوں میں وہ مٹھاس پیدا کر دی تھی جو کسی اور سائے میں حاصل نہیں ہو سکتی۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلاَنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْن ۔