حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
پورا معاشرہ ہی ان برائیوں میں لت پت تھا؟(۱)شعورِ محمدﷺ ملتِ ابراہیم: یہاں تک یہ سمجھا گیا کہ حضورﷺ فطری ’’المسلم‘‘ تھے۔ اسلام کا جو نقشہ آپﷺ نے اقوامِ عالم کو پیش کرنا تھا اس کا عملی نمونہ حضورﷺ کے بچپن اور جوانی میں دیکھا گیا، اسی کا نام’’ ملتِ ابراہیم‘‘ ہے جس کا قرآن کریم میں حکم ہوا۔(۲) اللہ نے بچپن سے شعورِ محمدﷺ کو رُخ ہی اسلام کا دیا تھا، اس لیے کہ آپﷺ ابراہیمی دُعائوں کا ثمر تھے۔ موحد ماں کے خوابوں کی تعبیر تھے، آپﷺ کو ابراہیمی ہونے پر فخر تھا، اس لیے عادات بھی ملتِ ابراہیم کی تھیں ، جس طرح نوعمری میں سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کو عید کے روز میلے میں جانے اور وہاں شرکیہ افعال کے لیے مجبور کیا گیا اور آپ علیہ السلام نہیں تشریف لے گئے، ان کی عدم موجودگی میں اکیلے تھے تو بتوں کی درگت بنائی اور کلہاڑا بڑے بت کے کندھے پہ رکھا، جب قوم واپس آئی اور انہوں نے پوچھا: ابراہیم( علیہ السلام )! یہ واردات کون کر گیا؟ ابراہیم علیہ السلام : ان کے بڑے نے کی۔ پوچھو ان بتوں سے (جن کی پٹائی ہوئی) قوم: (اُن سے کیسے پوچھیں ؟ یہ سوچ کر) سر جھک گئے اور قوم کہنے لگی: ابراہیم( علیہ السلام )! تم جانتے ہو، یہ بولتے نہیں ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام : تم ان کی پوجا کرتے ہو جو نہ تمہیں نفع دے سکیں اور نہ نقصان، افسوس ہے تم پر اور ان پر جن کی تم پوجا کرتے ہو۔(۳) -------------------------- (۱) اس سلسلے کی دوسری جلد ’’فجر ہونے تک‘‘ میں آپ کے بے داغ اور صالح عہدِ شباب کا ذکر تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ (۲) تفسیر البغوی: ۱/۱۵۳، ۱۵۲، روح المعانی: ۱/۳۸۶، القرطبی: ۱۶/ ۵۹ (۳) سورۃ انبیاء آیت نمبر ۵۷ تا ۶۶