حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
ان کی شناخت مَوْلاَۃُ رَسُوْل اللّٰہِ ( اللہ کے رسولﷺ نے جسے آزاد کیا) سے ہوتی ہے۔ حضرت اُمّ ایمن رضی اللہ عنہا آپﷺ کی خدمت کو سعادت سمجھتی تھیں اور جب سرور عالمﷺ جوان ہوئے تو اُمّ ایمن رضی اللہ عنہا وِرَاثَۃً (بطور کنیز) حضورﷺ کے حصے میں آئیں ۔ آپﷺ نے انہیں اپنی غلام نہ رکھا بلکہ آزاد کر دیا۔ اس لیے ان کو مَوْلاَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ لقب سے پہچانا جانے لگا۔ (مَعْرِفَۃُ الصَّحَابَۃ اُمّ ایمن رضی اللہ عنہا ) وہ اَلْمُبَشَّرَۃ بِالْجِنَّۃِ (جنت کی خوشخبری پانے والی) بھی ہیں ۔ یہ لقب صرف ان عورتوں کو ملتا تھا جن کو رسول رحمتﷺ صراحت کے ساتھ جنت میں جانے کی خبر دے کر مسرور کر دیا کرتے تھے۔ اُمّ ایمن رضی اللہ عنہا کے خاوند جب فوت ہو گئے اور عدت گزر گئی تو ان کے لیے وہ دن بڑا عظیم تھا جس دن صحابہ رحمہم اللہ کے مجمع میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی شخص جنت کی عورت سے عقد کرنا چاہے تو وہ اُمّ ایمن رضی اللہ عنہا سے نکاح کرے۔(۱)نبیﷺ کے گھرانے کی اعزازی رُکن: حضرت اُمّ ایمن رضی اللہ عنہا نے نہ صرف سیدنا محمدﷺ سے اپنی گود کو منور کیا اور آپﷺ کی پرورش کی بلکہ آپﷺ کے والد، والدہ، دادا اور دوسرے بزرگوں کی آنکھیں بھی دیکھی تھیں ، اس لیے حضورﷺ ان کی بے حد تعظیم فرمایا کرتے تھے اور اکثر ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے۔ چنانچہ حضورﷺ اُمّیْ بَعْدَ اُمِّیْ ’’میری ماں کے بعد ماں ‘‘ کہہ کر مخاطب فرمایا کرتے اور خاندانی نسبتوں کو برقرار رکھنے کے لیے آپﷺ ان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کرتے ھٰذِہٖ بَقِیَّۃُ اَھْلِ بَیْتِی ’’یہ میرے گھر والوں میں سے باقی ہیں ۔‘‘(۲) --------------------- (۱) السیرۃ الحلبیۃ، باب وفاۃ والدہﷺ (۲) سیرت ابن کثیر ذکر اماء ہ