حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
رحمت عطا فرما! تاکہ ان کی زمینیں سرسبز ہو جائیں اور تکلیفیں دور ہو جائیں ۔‘‘ (نبی اکرمﷺ حضرت عبدالمطلب کے ساتھ تھے۔ آپﷺ دیگر لوگوں کے ساتھ آمین کہہ رہے تھے) ابھی یہ دعا پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ (گھٹا چھائی) بادل آئے کچھ (حضورﷺ) اور قریش کی طرف کو برسے اور کچھ قیس اور مضر کی طرف برسنے لگے، حضرت عبدالمطلب نے فرمایا: اے گروہِ قیس و مضر جائو تمہیں سیرابی عطا ہو گئی۔(۱)ننھے محمدﷺ اسوۂ ابراہیم علیہ السلام پر: سات آٹھ سال کی عمر میں حضورﷺ کا بیت اللہ میں آیاتِ الٰہیہ کا گہرا مطالعہ کرنا اور بنو سعد کے سفر میں تخلیقِ کائنات کے رازوں سے واقفیت حاصل کرنا سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کا اُسوۂ حسنہ ہے، جسے دینِ فطرت کہا جاتا ہے اور نام اس کا اسلام رکھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے قلبِ منور کو دنیاوی گرد و غبار سے مکمل محفوظ رکھنے کے لیے پہلے تو سینہ چاک کروا کر نورِ ایمان سے اسے بھر دیا، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نقوشِ قدم کی حسی زیارت کروا کر اس عبادت گاہ کے طوافوں ، دعائوں اور غلافِ کعبہ کے ساتھ چمٹنے کی لذتوں سے آشنا کیا، اب حضرت محمدِ کریم صاحبِ فضلِعظیمﷺ کو (مذکورہ واقعہ میں ) منیٰ، مزدلفہ اور عرفات کا رستہ دکھایا جا رہا تھا تاکہ مناسکِ حج کے میدانوں سے مکمل واقفیت حاصل ہو، جب آپﷺ کے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا مانگی: رَبَّنَا اَرِنَا منَا سِکَنَا(۲) ’’اے ہمارے پروردگار ہمیں ارکانِ حج کی ادائیگی کی تعلیم عطا فرما۔‘‘(۳) تو اس کے ساتھ یہ دعا بھی مانگی تھی: رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ(۴) ’’اے ہمارے پروردگار! ان ہی میں سے ایک رسول یہاں بھیج!‘‘ -------------------- (۱) السیرۃ الحلبیہ: ج ۱،ص ۱۶۳ (۲) البقرہ: ۱۲۸ (۳) تفسیر البغوی: ۱/۱۵۰ (۴) البقرہ: ۱۲۹