حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
’’اور جب آپﷺ کسی چیز کو ہاتھ لگاتے تو بِسْمِ اللّٰہِ ادافرماتے۔‘‘(۱) آپﷺ پیدا ہوئے تو عبدالمطلب خانہ کعبہ میں لائے اور آپﷺ کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دُعائیں کیں ۔(۲) جناب ابوطالب کو دیکھا گیا کہ وہ نبی محترمﷺ کی اُنگلی پکڑے ہوئے ہیں اور نبی مکرم علیہ السلام ان کے ساتھ طواف کر رہے ہیں ۔(۳)طہارت، وضو، غسل اور ستر کی حفاظت: جب یہ ثابت ہو چکا کہ حضور نبی مکرم علیہ السلام دین فطرت کا نمونہ بن کے رہے تو حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کی یہ باتیں بڑی اچھی طرح سمجھ آ جانی چاہئیں کہ ان کے پاس حضورﷺ نے جو وقت گزارا، اس میں آپﷺ دن کے ایک وقت میں وضو ضرور کرتے تھے اور دوسرے دن اسی وقت پھر وضو کرتے تھے، وہ فرماتی ہیں : میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ کو (پیشاب کے لیے) دھونا پڑے، آپﷺ مسلسل پاک اور صاف ستھرے رہتے تھے۔ میں آپﷺ کے کپڑے بدلنے کے لیے اُتارتی تو آپﷺ ناراض و بے چین نظر آتے اور جیسے ہی دوسرا کرتہ پہناتی، حضورﷺ کو خوش دیکھتی۔(۴) نظافتِ طبعی و طہارتِ حقیقی کا یہ عالم تھا کہ صبح جب حضورﷺ بیدار ہوتے تو سب بچوں کے منہ دھونے پڑتے اور آنکھیں صاف کرنی پڑتیں لیکن حضورﷺ اُٹھتے تو صاف ستھرے ہوتے (نہ آنکھوں میں میل اور نہ چہرے پہ سستی کے آثار) سرہے کہ اس میں گویا تیل لگا ہوا اور آنکھیں ہیں کہ ان میں سرمہ کی ڈوری دکھائی دے رہی۔(۵) یہ تو آپﷺ کا حال صغر سنی میں تھا، پوری عمرہی نہ آپﷺ کے جسم پہ مکھی بیٹھی اور نہ جوں پڑی۔(۶) ----------------- (۱) تاریخ الخمیس: ۱/۱۳۵ (۲) سیرت ابن کثیر: ۱/۲۰۸ (۳) السیرۃ الحلبیہ: ۱/۱۷۰، فقہ السیرۃ: ۱/۸۷ (۴) تاریخ الخمیس: ۱/۲۲۵سمط النجوم: ۱/۳۱۱ (۵) عیون الاثر: ۱/۵۱ (۶) الخصائص الکبری: ۱/۱۱۷