حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
ملاحظہ: اُمّ النبیﷺ کی قبر کے متعلق ایک قول ابن الاثیر کا یہ ہے کہ وہ مکہ حجون میں (شعب ابی رب) میں ہے لیکن الزھر الباسم میں علامہ مغلطائی نے اس کی تردید کی اور ابواء کو ہی مقامِ مدفن قرار دیا ہے اور جنوب میں تقریباً ۵۰۰ میٹر تک سیاہ ٹیلے ہیں ۔ ابواء کی آبادی ۵ ہزار ہے۔ ابواء مکہ شریف اور مدینہ طیبہ کے تقریباً نصف میں ’’وادی ودان‘‘ کا ایک گائوں ہے۔ ودان اور ابواء میں ۶ تا ۸ میل کا فاصلہ ہے۔ اسی وجہ سے یہاں پیش آنے والے غزوہ کا نام غزوۃ الابواء یا غزوۃ الودان مشہور ہے۔(۱)اللہ کے رسولﷺ والدہ کی قبر پر: صفر ۲ھ میں اللہ کے رسولﷺ اپنے پہلے غزوے میں ودّان کے مقام پہ تشریف لائے جو ابواء سے ۱۳ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ۶ ہجری میں غزوہ بنی لحیان سے فراغت کے بعد رسولِ رحمتﷺ اس جگہ سے جس دن گزرے، اس روز دو سو شہ سوار آپﷺ کے ہمراہ تھے۔ والدہ کی قبر کے پاس پہنچے تو آپﷺ کی ہچکی بندھ گئی۔ آپﷺ نے دیکھا کہ سب جانثار بھی آنسو بہارہے ہیں تو پوچھا: کیوں روتے ہو؟ صحابہ رحمہم اللہ نے عرض کی: جناب کو حزیں دیکھا تو ہمارے آنسو بھی چھلک پڑے۔ فرمایا: میں اپنی والدہ کی قبر کے پاس سے گزرا تو (آنسو رُک نہ سکے)(۲)پھر جب مکہ فتح ہوا، دس ہزار کا لشکر آپﷺ کے ساتھ تھا۔ آپﷺ والدہ کی لحد پر تشریف لائے۔ عمرۂ حدیبیہ میں پندرہ سو جانثاروں کے ساتھ آپﷺ یہاں سے گزرے تو اسی طرح آنسو بہائے، دعا کی اور اگلی منزل کے لیے روانہ ہو گئے۔ (۳)الغرض: یہ وہ جگہ ہے جسے حضورﷺ نے عمر بھر یاد رکھا اور اپنی اُمت کو آپﷺ ماں کی قبر کی زیارت اور ان کی وفاداریوں کو یاد رکھنے کا سبق دیتے رہے۔ابواء سے وادی تیہان (مکہ) کی طرف: تین رُکنی قافلہ مدینہ سے چلا تھا، ان میں سے ایک راہی ابواء میں ہمیشہ کی نیند سو گیا۔ اُمّ ایمن رضی اللہ عنہا نے قریبی بستی کی مدد سے آمنہ کو لحد کے سپرد کیا۔ پیارے محمدﷺ کو اونٹنی پہ بٹھایا اور وادی تیہان (مکہ مکرمہ) کی طرف چل دیں ۔ پیارے محمدﷺ بار بار ---------------------------------- (۱) اطلس سیرت النبیﷺ ج ۱ ص ۸۴ (۲) تاریخ الخمیس : ۲/۴ (۳) تاریخ الخمیس: ۲/۴