حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
ان اشعار کے بعد وہ فرمانے لگیں : اے بیٹے! ہر زندہ نے مرنا ہے، ہر نیا پرانا ہوگا، ہر بڑا فنا ہونے والا ہے، میں مر رہی ہوں لیکن میری یاد (تمہارے ذریعے) باقی رہے گی، میں خیر چھوڑ کر جا رہی ہوں ، میں ( اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میں ) نے ایک پاکیزہ انسان( حضرت محمدﷺ) کو جنم دیا ہے۔اُمّ رسولﷺ کی وفات پر جنوں کا اظہارِ غم : حضرت اُمّ ِسماعہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد ہم نے جنوں کا نوحہ سنا (آواز آ رہی تھی اور کہنے والے نظر نہیں آ رہے تھے) ہم نے ان اشعار کو یاد کر لیا جو ان سے سنے تھے۔ وہ جو کچھ اشعار میں کہہ رہے تھے:(اسکا مفہوم یہ ہے) اے آمنہ! اے نیک، خوبصورت، پاک دامن اور مبارک و بلند مرتبہ خاتون! اے مرحوم عبد اللہ کی اہلیہ اور اس کی شریکِ حیات! اے اللہ کے نبیﷺ کی ماں ، اے سکینہ (رحمتِ الٰہی) کی مستحق ماں ! اے اس شخص کی والدہ جو مدینہ کے منبر کا وارث ہے۔یہ بستی (یثرب)مدینہ منورہ، مطہرہ و مبارک شہر ہی ان کے جسد اطہر کو محفوظ رکھے گا۔ حضرت محمدﷺ (آپ کے بیٹے) ایسے قیمتی ہیں کہ اگر اُن کا فدیہ دیا جاتا تو (ان کے والد عبد اللہ کے سو اُونٹ فدیہ سے کہیں ) زیادہ دیا جاتا۔ اے آمنہ! ہر قوی و کمزور چھوٹا اور بڑا آپ کی وفات پر حزیں ہے۔ آپ اس بچے سے جدا ہوتی ہیں جس کا درجہ بلند و بالا ہوگا۔ اے آمنہ! ہم میں سے ہر ایک آپ کی جدائی پر غمگین ہے۔(۱) بہرحال حضرت آمنہ سنبھل نہ سکیں اور یہیں اگلے جہان سدھاریں ، ’’اَبْوَاء‘‘ میں ہی دفن ہوئیں ، حضرت محمدﷺ کے والد بھی پردیس میں فوت ہوئے اور اب ماں بھی قوم سے بہت دور، وطن سے بھی دور جدا ہوئیں ، آپﷺ یتیم تھے یعنی باپ کے سایہ سے محروم اور اب امی بھی داغِ مفارقت دے گئیں ، وہ ماں جس کے ہاتھوں کی خوشبو بھی سیر ہو کر نہیں لے سکے تھے۔ ( اللہ ہی ولی و کارساز ہے)۔ چھ سال کی عمر ہی کیاہوتی ہے؟ جس میں آپﷺ کو یہ غم دیکھنا پڑا۔’’اَلْاَبْواء‘‘ اور مرقدِ اُمّ ِرسولﷺ جہاں حضورﷺ کی والدہ کی قبر ہے۔ یہ جگہ (اَلْاَبواء) مدینہ سے مکہ کی شاہ راہ پر ’’حُجْفَہ‘‘سے ۲۳ میل دور ہے۔ مستورہ، ابواء سے ۲۸ کلومیٹر مغرب میں ہے، آج کل اسے’’ خریبہ ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ ابواء میں داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ پر چھوٹی سی پہاڑی پر سیّدہ آمنہ (اُمّ رسولﷺ) کی قبر ہے جو دور ہی سے نظر آ جاتی ہے۔ کیونکہ اس کے چاروں طرف پتھر رکھے ہوئے ہیں ۔ ابواء کا علاقہ ۱۲ کلومیٹر لمبا اور تین کلومیٹر چوڑاہے۔ شمال کی جانب سے اسے پہاڑ نے گھیر رکھا ہے۔ ------------------------------- (۱) مستعذب الاخبار: ۱/۹۰، سبل الہدیٰ: ۲/۱۲۱، ۲/۱۲۶، (بتضعیف) الزھر الباسم فی سیرۃ ابی القاسم: ۱/۴۱۲، تاریخ الخمیس: ۱/۲۲۹، الخصائص الکبریٰ: ۱/۱۳۵، سمط النجوم: ۱/۱۲۷، شرح الزرقانی: ۱/۳۱۰، شاعرات العرب: ۱/۱۲۲،