حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
تو سیّدنا محمدﷺ کھانے سے ہاتھ کھینچ لیتے اور دوسرے بھائیوں کو اپنے نفس پر ترجیح دیتے تھے۔ نو دس سال کی عمر میں یہ کام وہی شخص کر سکتا ہے، جس نے ابھی تیس سال تک ایثار و ہمدردی اور درگزر کا عملی سبق دینا ہے اور پھر قوم کو قرآنی آیت وَیُوْثِرُوْنَ عَلیٰ اَنْفُسِھِمْ(۱) ’’وہ اپنی جان پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں ‘‘ سنانا تھا، اس عمل کی بنیاد آپﷺ نے بچپن میں رکھی، جس سے سخاوت، زکوٰۃ، فطرانہ اور قربانی کی شاخیں نکلتی ہیں ۔ اُمّ ایمن رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ آپﷺ اپنا حق چھوڑ کر پیچھے ہٹ جاتے تھے۔(۲) ابھی دن قریب ہیں کہ آپﷺ کے دسترخوان پر یتیم، مساکین اور بیوائیں نظر آئیں گی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے آپﷺ کی شادی ہوگی تو دونوں مل کر فلاحی کاموں کو انجام دیں گے۔نظافتِ اخلاق، جسمانی طہارت اور زکاوت: جب کوئی بچہ یا بڑا سوتا ہے، اس کو اٹھ کر سب سے پہلا کام یہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ اپنی آنکھیں اور منہ کو صاف کرتا ہے لیکن حضورﷺ کا عہد طفلی سے یہ عالم تھا کہ آپﷺ سو کر اُٹھتے تو منہ دھلا، آنکھیں صاف اور سرمگیں ہوتی تھیں ۔(۳) جب آپﷺ پیدا ہوئے تو صاف ستھرے، نہلانے کی ضرورت نہ تھی۔(۴) نہلانے والوں نے نہلا کراپنا شوق پورا اور خدمت کا حق ادا کیا۔ جس شخص کی منجانب اللہ نظافت کا یہ عالم ہو وہ بلوغت اور جوانی اور پھر بطور نبی متعارف ہو کر اخلاق و کردار، طہارت بدنی، روحانی اور تخیل کی پاکیزگی کا عظیم مینار کیوں نہ ہوگا؟ جس دن آپﷺ نے زمین پہ قدم رکھا۔ اسی دن سے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے برکاتِ نبوی کا مظاہرہ دیکھا۔ پھر حلیمہ و عبدالمطلب کے عہدِ کفالت میں ہر ملنے دیکھنے والوں پر آپﷺ کی برکات کو آشکارا کیا گیا اور جب ابوطالب نے سنا، دیکھا اور پرکھا تو ------------------------- (۱) الحشر:۹ (۲) شرف المصطفیٰ: ۱/۳۹۱ (۳) عیون الاثر: ۱/۵۱ (۴) الطبقات الکبریٰ: ۱/۸۲