حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
محسوس ہوا کہ وہ ابھی گرا چاہتے ہیں ۔(۱) حکماء اسلام لکھتے ہیں : یہ اشارہ تھا کہ سلطانِ نبوت سیّدنا محمد کریمﷺ کی دنیا میں تشریف آوری کے بعد کفر و شرک پر توحید و رسالت کی روشنی غالب آ رہی ہے۔مجوسیوں اور بت پرستوں کو انتباہ: آتش کدۂ ایران میں ایک ہزار سال سے آگ جل رہی تھی، یہاں آگ کی پوجا کرنے والے (مجوسی مذہب کے لوگ) رہتے تھے، ان کے خیال میں اس عبادت کے کچھ اعمال بجا لانے سے دنیا و دین کے سارے کام بنتے ہیں ۔ جس رات حضورِ انورﷺ نے یہاں قدم رکھا، اسی شب میں یہ آتش کدہ بجھ گیا، صبح مجوسیوں نے دیکھا کہ ان کا معبودِ باطل ظلمت کدہ میں تبدیل ہو چکا ہے۔(۲) اقوامِ عالم کے لیے یہ بھی ایک انتباہ تھا کہ آگ نہ نفع دے سکتی ہے اور نہ نقصان۔ اس میں جو جلانے اور روشنی کی طاقت ہے، اس کے پسِ منظر میں ایک نظر نہ آنے والی ذات ہے۔ جسے ’’ اللہ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس اعلانِ عام کے لیے اب جس شخصیت کا انتخاب کیا ہے، انہیں ’’حضرت محمدﷺ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اب ان کے ذریعے لوگوں کو سمجھایا جائے گا کہ معبودِ برحق صرف اللہ ہے۔ اس حقیقت کے ادراک کے لیے ان کی آگ ٹھنڈی کی گئی ہے۔ جب کوئی بادشاہ کسی سرکش کی گوشمالی کرنا چاہتا ہے تو وہ سب سے پہلے اس کے اسباب کِبر پر ضرب لگاتا ہے تاکہ وہ اور اس کے حواری سمجھ جائیں کہ حاکمِ اعلیٰ کوئی اور ہے، یہ نہیں ہیں ، جو دعوے وہ کرتے ہیں وہ جھوٹ ہیں ۔ اسی مبارک رات میں جب نبیِ اکرمﷺ کی تشریف آوری ہوئی، اسی شب میں دیکھا گیا کہ بت زمین بوس ہو چکے ہیں ۔(۳) ------------------------------- (۱) الوفاء: ۱/۵۴، عیون الاثر: ۱/۳۴، سیرۃ ابن کثیر: ۱/۲۰۷) (۲) المواھب اللدنیہ: ۱/۸۰ (۳) تاریخ الخمیس: ۱/۲۱۹،۱۰ نموذ ج اللبیب: ۱/۲۱۸، ۳۳۸