حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
صحیح روایتوں میں اس قسم کی جزوی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں جن کا روایت کے مرکزی مفہوم پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اس لیے پوری روایت کو غلط نہیں کہا جاسکتا۔ چنانچہ یہ روایت مسند بزار میں بھی آئی ہے جس میں یہی واقعہ اسی طرح بیان کیا گیاہے جیسے ترمذی کی روایت میں مذکور ہے لیکن اس میں یہ جملہ موجود نہیں ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضور ﷺ کو واپس روانہ کردیا۔ (۱)مہرِ نبوت کی کرنیں : محمد بن اسحق کی متعدد روایتوں میں واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے کہ جب یہ قافلہ بحیرا راہب کی خانقاہ کے قریب پہنچا تو بحیرا نے دیکھا کہ اس میں حضور ﷺ پر ایک بادل سایہ کیے ہوئے ہے اور درخت کی شاخیں بھی آپ ﷺپر جھک گئی ہیں ، یہ دیکھ کر بحیرا کو جستجو ہوئی اور اس نے قافلے والوں کو دعوت دی کہ میں نے آپ کے لیے کھانا تیار کیا ہے، اس لیے آ پ سب لوگ میرے پاس کھانے کے لیے تشریف لائیں ۔ سب آگئے لیکن حضور ﷺ تشریف نہ لائے، بحیرا نے لوگوں سے پوچھا : کیا آپ تمام ساتھی آگئے ہیں ؟ لوگوں نے کہا کہ سب آگئے ہیں ، بس ایک کمسن لڑکا ہے جو کجاوے (میں اونٹوں کی حفاظت کے لیے) رہ گیا ہے۔ بحیرا نے اصرار کرکے آپﷺ کو بلایا اور آ پﷺ کے مبارک کندے پر مہر ِنبو ت دیکھی پھر ابو طالب سے پوچھا کہ اس لڑکے کا آپ سے کیا رشتہ ہے؟ ابو طالب نے کہا :کہ یہ میرے بیٹے ہیں ۔ بحیرا نے کہا کہ یہ آپ کے بیٹے نہیں ، (اس کے علم میں تھا کہ آسمانی کتابوں میں نبی آخرالزماں ﷺ کے بارے میں لکھاہے کہ وہ یتیم ہوں گے اس لیے کہاکہ )ان کے والد زندہ نہیں ہوسکتے۔ تب ابو طالب نے بتایا یہ میرے بھتیجے ہیں اور ان کے والد فوت ہوچکے ہیں ۔ اس پر بحیرا نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ انہی واپس لے جائیں اور یہودیوں سے ان کی حفاظت کریں ، چنانچہ ابو طالب خود -------------------------------- (۱) مسند البزار،مسند ابی موسیٰ الاشعری، ج ۱، ص ۴۶۷، حدیث نمبر۳۰۹۶