حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
آمنہ کے گھر میں حضرت محمدﷺ کو الوداع کہنے کے لیے جمع ہو گئے۔ سب نے پیارے حضرت محمدﷺ کو آنسوئوں کی برسات میں حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے سپرد کیا اور حضرت عبدالمطلب نے بہت تاکید کی کہ حلیمہ( رضی اللہ عنہا )! تمہیں معلوم ہے یہ بچہ عام بچہ نہیں ہے، اس کے دوست بھی بے شمار ہیں تو اس کے دشمن بھی قدم قدم پر ہیں ۔ انہوں نے ننھے حضورﷺ کے سر پہ ہاتھ پھیرا اور حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دیا اور کہا:میرے بیٹے کا اللہ ہی حافظ ہے۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا گھر کی جانب روانہ ہوئیں ، پیارے محمدﷺ پھر اسی فضا میں آ گئے، جہاں سے تشریف لے گئے تھے، وہی صحراء، ریت کے ٹیلے اور چکنے چکنے پتھر تھے، وہی ساتھی، ہم جولی اور ریت پر اُچھلتے کودتے بچے۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا مکہ سے اپنے گھر پہنچیں ، ان کے بچے، خاوند اور سب قبیلہ اور بستی والے سیدنا محمدﷺ کی واپسی پر اس لیے بہت زیادہ خوش ہوئے کہ انہیں اُمید نہ تھی کہ مبارک نومولود پھر آ سکے گا۔ (یہاں اس بار کئی اہم واقعات رونما ہوئے)اس بچے کو قتل کر دو! حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ وہ آنحضرتﷺ کو’’ عُکاظ‘‘ کے میلے میں لائیں ۔ جاہلیت کے زمانے کا یہ ایک مشہور میلہ تھا جہاں بازار لگا کرتا تھا۔ یہ طائف اور نخلہ کے مقام کے درمیان سجایا جاتا تھا۔ عرب کے لوگ جب حج کرنے آتے تو شوال کا مہینہ اس میلے میں گزارتے (کھیل کودکے علاوہ) یہاں ہر شخص بڑھ چڑھ کر فصاحت و بلاغت کے جوہر دکھاتا۔علمی،ادبی اور ثقافتی مجلسیں جمتیں ۔ ’’عُکاظ‘‘ کے معنیٰ ہیں فخر و غرور اور بڑائی بیان کرنا اور ایک دوسرے پر غلبہ پانا۔ اس بازار کو عُکاظ اسی لیے کہا جاتا تھا کہ یہاں لوگ اپنی خاندانی بڑائیاں بیان کرنے میں ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کیا کرتے تھے۔ بعض مورخین نے لکھا ہے کہ یہ میلہ بنی ثقیف اور قیس غیلان کے زیرِ انتظام تھا۔ جب دایہ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا آنحضرتﷺ کو لے کر وہاں پہنچیں تو کسی کاہن کی نظر آپﷺ پر پڑی (اور اس کو آپﷺ کی ذاتِ والا صفات میں نبوت کی وہ تمام علامتیں نظر آئیں جو اس نے پہلی کتابوں میں دیکھی تھیں ) اس نے فوراً پکار کر کہا: اے میلے والو! اس لڑکے کو قتل کر دو! اس لیے کہ یہ ایک سلطنت کا بادشاہ بننے والا ہے۔ کاہن کی یہ بات سنتے ہی دایہ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا نظر بچا کر وہاں سے نکل گئیں ۔ اب لوگ چاروں طرف دیکھ کر اس سے پوچھنے لگے کہ کس