حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
والے آ چکے ہیں ۔ہدایت کے روشن چراغ اور شجرِ ایمان: قرآن کریم میں اللہ نے آپﷺ کو سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۱) روشن چراغ قرار دیا ہے اور یہ لکھا جا چکا ہے کہ ظہورِ قدسی کے وقت جو روشنی ظاہر ہوئی وہ نورِ ہدایت کی حسی صورت تھی کہ جس طرح آپﷺ کے نور سے آسمان و زمین، مشرق سے مغرب، شمال سے جنوب تک نور ہی نور نظر آیا، اس سے یہ سمجھانا مقصود تھا کہ اب دو عالم میں کوئی شخص ظلمت و گواہی سے بچنا چاہتا ہے تو وہ صرف اور صرف حضرت محمدﷺ کی ہدایات (شریعت) کے مرکزِ انوارات سے مستفید ہو، ورنہ نہ کہیں جہاں میں اماں ہے اور نہ کوئی ضامنِ زمان و مکاں ہے۔ اسی نورِ ہدایت کا ذکر سورۂ مائدہ آیت نمبر ۱۶ میں ہے۔ راہنمائی کا وہ سلسلہ حضورﷺ کے بچپن سے شروع ہو گیا تھا جس کی طرف آپﷺ نے لوگوں کو بلانا تھا۔ قرآن کریم میں ہے: وَوَجَدَکَ ضَالاًّ فَھَدیٰ(۲) ’’اور ہم نے آپﷺ کو گم پایا، پھر راہ دکھائی۔‘‘ اس کی تفسیر میں مختلف اقوال میں سے ایک یہ ہے کہ آپﷺ کو اللہ نے فرمایا: اے نبی علیہ السلام ! جب آپﷺ کم عمر بچہ تھے اس وقت سے ہی اللہ نے آپﷺ کو اپنی معرفت کا علم عطا کرنا شروع کر دیا تھا۔ اللہ نے فرمایا: وَاللّٰہُ اَخْرَ جَکُمْ مِنْ بُطُوْنِ اُمَّھٰتِکُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ شَیْئاً ’’اور اللہ نے تمھیں تمہاری مائوں کے پیٹوں سے (ایسا) نکالا ہے کہ تم کچھ نہ جانتے تھے۔‘‘(۳) امام رازی رحمہ اللہ اس آیت کی روشنی میں لکھتے ہیں : ضَالْ صحراء عرب میں اس منفرد درخت کو کہا جاتا تھا (جو لق و دق صحرا میں اکیلا نظر آتا ہے اور راہ گیروں کے لیے ایک علامتِ سفر (سنگ میل) کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضور نبی اکرمﷺ کو ضَالْ (شجرِ یکتا) ---------------------------------- (۱) الاحزاب: ۴۶ (۲) سورۃ الضحیٰ: ۷ (۳) النحل: ۷۸