حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
تفصیلات سیرۃ النبیﷺ کے اس سلسلے کے دوسرے حصے ’’فجر ہونے تک‘‘ میں موجود ہیں جو آپﷺ کی جوانی کے موضوع پہ لکھی گئی ہے (۴) المواھب اللدنیہ: ۱/۹۳، شرح الزرقانی: ۱/۲۷۷ تاریخ الخمیس: ۱/۲۱۹، الخصائص الکبریٰ: ۱/۹۱، الموذج اللبیب: ۱/۲۲۱، شرف المصطفیٰ: ۱/۳۵۸ سبل الہدیٰ: ۱/۳۴۹، سمط النجوم: ۱/۳۱۱ فرشتے آئے اماں آمنہ کو دعا سکھائی کہ بچے کے لیے اللہ کی پناہ مانگو۔(۱) اور پھر غسل دینے کو بھی تو یہی نورانی مخلوق آئی۔(۲) اس کے بعد بھی ان کی آمد جاری رہی۔ ایک دن حضرت عباس رضی اللہ عنہما نے بھی دیکھا، وہ کہتے ہیں : یہ مہر دیکھو، اس کی پیٹھ کے اوپری حصہ میں ہے، جو اس کی علامتِ خاص ہے۔(۳) ایک دن تو خودجبریل علیہ السلام آئے، ننھے محمدﷺ کا اس دن نام رکھا جانا تھا۔(۴) الغرض: روزِ اوّل سے بلوغت تک اور بلوغت سے جوانی اور غارِ حرا تک آسمانی مخلوق اور ساتوں آسمانوں کے رب سے آپﷺ کا رابطہ رہا۔ اس کے بعد اعلان اسلام ہوا تو بہت سی چھپی ہوئی خبریں آشکار ہو گئیں اور جبریل علیہ السلام آنے لگے۔ اس سے پہلے ملائکہ کے درود و سلام کا سلسلہ تو بچپن سے جاری ہو چکا تھا۔(۵)بیت اللہ سے بیت المقدس تک: بچپن میں مکہ سے سرزمین شام کی طرف سفر دراصل سفر معراج کا اشارہ تھا۔ آپﷺ کا ایک لقب نبِيّ القِبْلَتَیْن ہے۔ چنانچہ آپﷺ نے دونوں قبلوں کی طرف نمازیں پڑھیں اور پڑھائیں ۔ شام سے آپﷺ کا گہرا تعلق ہے۔ حضرت کعبِ احبار رحمہ اللہ کتبِ سابقہ کے بڑے عالم تھے۔ کبار تابعین میں سے ہیں ، فرماتے ہیں : کتب آسمانی میں لکھا ہے کہ وہ مکہ میں پیدا ہوں گے۔ مدینہ ان کا دارالہجرت ہوگا اور شام تک ان کی حکومت ہوگی۔(۶) چنانچہ آپﷺ مکہ میں پیدا ہوئے۔ آپﷺ کی نبوت (کے اعلان) اور اسلام کی ابتدا یہیں سے ہوئی اور ملک شام تک آپﷺ کی حکومت پھیلی۔ بیت المقدس (شام) تک سفر اسراء (معراج) ہوا۔ آپﷺ کے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اسی -------------------------------- (۱) زرقانی: ۱/۱۹۹ (۱) تاریخ الخمیس: ۱/۲۰۹ (۳) الزہر الباسم: ۱/۴۱۴ (۴) دلائل النبوۃ: ۴/۳۸۱ (۵) تاریخ الخمیس ۱/۱۸۷ الخصائص الکبریٰ ۱/۸۱ (۶) المواھب اللدنیہ: ۱/۷۹، شرح الزرقانی :۱/ ۲۲۲، سبل الہدین: ۱/۴۳۲