حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
میں نےآپﷺ کو جگانا پسند نہیں کیا، پیار سے ہاتھ ان کے سینے پہ رکھا، آپﷺ فوراً مسکرائے اور میری طرف دیکھنے لگے، میں نے دیکھا کہ آپﷺ کی آنکھوں سے ایک نور نکلا، جو آسمان تک پہنچ گیا ہے۔ میں دیکھ رہی تھی کہ (حجرے کے اندر ہونے کے باوجود) ہمیں آسمان تک نور ہی نور نظر آ رہا تھا۔ میں نے آپﷺ کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور گود میں لے لیا۔(۱)الوداع! بیٹے! الوداع: ماں نے بچے کو آخری پیار کیا اور دعائیں دیتے ہوئے دو سال کے لیے بنوسعد بھیج دیا۔ ادھر حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کی سواری گھر سے باہر کھڑی اس شہسوار کے انتظار میں تھی جو اسے براق کی شوخیاں اور ہرن کی رفتار عنایت کرے، اس کی لگام تھامے حارث بھی سراپا انتظار تھے، اس نے دیکھا اس کی بیوی ایک ماہ جبیں کو سینے سے لگائے باہر نکلی، بنو ہاشم کے چشم و چراغ کو الوداع کہنے یوں تو سب ہی آئے، کمی تھی تو صرف عبد اللہ کی اور اسے محسوس کیا تو صرف آمنہ اور عبدالمطلب نے۔ کسی کو کیا معلوم سہاروں کا وجود بہتر ہوتا ہے کہ ان کا ٹوٹنا مفید ہوتا ہے، اس راز کو جانیں تو وہ جانیں جو جانِ جاناں ، محبوبِ دلبراں ﷺ کے ہمراز تھے۔ اس کمی کو پورا کرنے دادا آگے بڑھے، منے کو پیار کیا اور اماں حلیمہ رضی اللہ عنہا کے بازوئوں میں رکھ دیا۔ سہ رُکنی قافلہ جب مکہ سے چلا تو کسی نے دیکھا دادا کچھ گنگنا رہے ہیں ، کان لگایا تو سنا گیا، وہ کاروانِ محمدی(ﷺ )پہ نظریں جمائے کہہ رہے تھے: میرے اللہ ! یہ مسافر شہ سوار۔ میرا محمدﷺ ہے، اسے خیر سے واپس لانا۔ ہر بد خواہ سے اسے بچانا۔ --------------------- (۱) السیرۃ الحلبیہ: ۱/۱۳۱، شرف المصطفیٰ: ۱/۳۷۴