حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
الٰہی سے وہ ضرور ملتا ہے ، حضورِ اقدس ﷺ گھر سے بیت اللہ کی طرف صبح سویرے تشریف لاتے،اور اس سے سیراب ہوتے تھے۔ کوئی ناشتے کاپوچھتا تو فرمادیتے : میں آبِ زمزم (کی برکت) سے سیر ہوگیا ہوں ۔(۱) ابوطالب کے بچے عام بچوں کی طرح کھانے پہ چھین جھپٹ کرتے، شوروغل ہوتا، تو حضرت محمدﷺ اپنا حق قربان کرتے اور کھانے سے ہاتھ کھینچ لیتے تھے، ابوطالب نے یہ دیکھا تو حضورﷺ کو الگ کھانادے دیا۔(۲) جب ابوطالب نے حضورﷺ کی برکات اور خیرات کو دیکھا تو فرمایا:اِنَّکَ لَمُبَارَکٌ۔(۳) تم (اے بیٹے) بہت ہی مبارک ہو!بارش کا نزول (برکتِ رسولﷺ): کعبۃُ اللہ کے معاملات اور نظامِ حکومت کے امور (جو کسی قدر رائج تھے) وہ عبدالمطلب نے زبیر بن عبدالمطلب کے سپرد کردیے تھے۔ آبِ زم زم کے کام ابوطالب کی ذمہ داری میں دیے۔ نبی اکرم ﷺ کے تبرکات سے یہ دونوں مستفید ہوتے تھے۔ جناب زبیرحضورﷺ کو تجارت کے لیے یمن لے گئے اور ابوطالب ہر وقت آپﷺ کو اسی طرح ساتھ رکھتے تھے جس طرح عبدالمطلب رکھتے تھے۔ رات کو اپنے پہلو میں سلاتے تو دن کو ساتھ لیے پھرتے، کثیر العیال تھے، اس کے باوجود ان کی نظر رُخِ مصطفیﷺ پہ رہتی تھی۔ ایک دن مکہ کی ایک مجلس میں قحط سالی کے لیے دعا کی بات ہورہی تھی جہلمہ بن عرفطہ کہتے ہیں کہ کوئی کہتا تھا لات و عزّیٰ سے مانگو! اور کسی کی تجویز تھی منات کو بھی شامل کرلو! اس دوران ایک بوڑھا باوقار اور حسین شخص سامنے آیااو رکہنے لگا: ارے تم کہاں بھا گ رہے ہو، یعنی حق سے کیوں منہ پھیرتے ہو؟ جبکہ تمہارے اندر --------------------------- (۱)سبل الہدیٰ:۲/۱۳۵، الخصائص الکبری :۱/۱۴۱، الاکتفاء:۱/۱۱۱، المختصر الکبیر:۱/۹، امتناع الاسماع :۴/۱۰۰ (۲) سیرۃ الحلبیہ :۱/۱۶۹،شرف المصطفیٰ ۱/۳۹۱، السیرۃ النبویہ :۱/۲۴۲ (۳)شرف المصطفیٰ ﷺ:۱/۳۵۱