حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
گیا جس طرح اعلانِ نبوت کے بعد جانثارانِ حبیبﷺ نے ایک ایک لمحہ محفوظ کیا۔ اتنا تو لکھا ہے کہ جناب عبدالمطلب حضورﷺ کو اکثر اوقات ساتھ رکھتے، مسجد الحرام کے صحن میں ، طوافوں میں ، حطیم میں اور مقامِ ابراہیم کے پاس دادا اور پوتے کو ہمراہ دیکھا گیا، عربوں کا رواج تھا کہ وہ نوعمر بچوں کو اپنے کندھوں پہ سوار کرتے، جس طرح ہمارے حضورﷺ بھی حسنین کریمین رضوان اللہ تعالیٰ عنہما کو اپنے دوشِ مبارک پر بٹھا لیا کرتے تھے۔(۱) عبدالمطلب نے بھی حضورﷺ کی سواری بننے کا شرف حاصل کیا ہوگا۔میرے بیٹے کو سرِ محفل بلایا جائے: جب دسترخوان لگ جاتا اور وہ بھی مجاورِ حرم (عبدالمطلب کی سخاوت کا دسترخوان)، سبحان اللہ اس سفرۂ ہاشمی پر اُونٹوں کے جگر اور کوہانیں پک کر آ جاتیں ۔(۲) اور ان کی قوم کے لوگ کھا رہے ہوتے، ان کے سامنے بھی کھانا چنا جاتا تو وہ فوراً پوچھتے: میرا بیٹا کہاں ہے؟ جب حضورﷺ تشریف لے آتے عبدالمطلب کبھی آپﷺ کو پہلو میں بٹھاتے، کبھی گود میں اور کبھی ران پہ بٹھاتے اور دیکھتے کہ سامنے کھانوں میں سب سے اعلیٰ کھانا کون سا ہے؟ پھر وہ کھانا حضور نبی کریمﷺ کو کھلاتے تھے۔ اور غلام صف بستہ یہ سارا منظر دیکھ رہے ہوتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: میرے بیٹے کو وہ شان ملنے والی ہے جو عرب میں کسی کو نہیں ملی۔(۳) معلوم ہوا عبدالمطلب نے سیدنا محمد کریمﷺ کو کبھی گود میں لیا تو کبھی پہلو میں بٹھایا اور کبھی رانوں پہ اور کبھی اپنے کندھوں پہ حسبِ عمر سوار کیا۔ الغرض: ایک حقیقی والد بھی اتنا وقت اور پیار بمشکل دے پاتا ہے جتنا انہوں نے اپنے عظیم بیٹے اور نیک و صالح بہو کے بیٹے کو دیا۔ ایک دفعہ حضرت محمدﷺ کسی کام سے کہیں -------------------- (۱)مسند احمد: ۱۸۵۲۴ (۲) مسند احمد بن حنبل: ۱۹۹۹۲ (۳) الموسوعتہ فی صحیح السیرۃ النبویہ: ۱/۱۰۸ بحوالہ الازرقی بسند حسن عن ابن عباس:۱/۳۱۴/۳۱۵، احمد: ۴/۴۴۴، البلاذری ص ۸۱، ابن اسحاق للتدمیری: ۱/۱۹۴