حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
والے! آپ ایسے حقیقت آگاہ ہیں جس کو بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ ایسے ذمہ دار ہیں جو کسی سے زیادتی نہیں کرتے (نا کسی کے ساتھ بخل کرتے ہیں ) یہ لوگ تیرے بندے، تیرے غلام ہیں اور یہ تیری بندیاں ہیں آپ کے حرم کے صحن میں ، یہ آپ کی بارگاہ میں اپنی قحط سالی کی شکایت کرتے ہیں ، جس کی وجہ سے مویشی تک سوکھ گئے ہیں ۔ (اے اللہ !) آپ ہم سب کی دعا قبول فرمائیے۔ اے اللہ ! آپ بارش برسائیے ایسی بارش جو سیراب کرنے والی ہو اور سبزہ اُگانے والی ہو۔ (دعا ختم ہوئی) یہ لوگ (دعا) کر کے ابھی واپس بیت اللہ میں نہیں پہنچے تھے کہ آسمان پھٹ پڑا ( زوردار بارش ہو ئی) جس نے سیلاب کی صورت اختیار کر لی۔(۱)خاندانی بزرگوں کی امیدیں : بنو ہاشم کا ہر فرد اور آپﷺ کی صحبت میں رہنے والا ہر شخص یہ تصور کرتا تھا کہ حضرت محمدﷺ بہت بڑی شخصیت کے مالک ہیں ۔ اگر اللہ نے آپ ﷺ کو زندگی دی تو ایسے کام کر دکھائیں گے جو عام آدمی سے ممکن نہیں ہیں ، لوگوں کی اس امید کی وجہ آپﷺ کا خلوص، اندازِ گفتگو، نتیجہ خیز باتیں ، صفائی، ستھرائی، چال ڈھال، مقصد کی لگن، ان تھک محنت اور مسلسل غور و فکر ہوسکتا ہے، کم عمری میں ہی اللہ نے ان صلاحیتوں کو ظاہر فرما دیا تھا۔ ایک دن جنابِ عبدالمطلب نے حضرت محمدﷺ کو اپنے گمشدہ اونٹ کی تلاش کے لیے بھیجا، جب آپﷺ دیر تک واپس نہ ہوئے، تو آپﷺ کے دادا اپنے لائق پوتے کی جدائی میں اشعار پڑھنے لگے، وہ طواف کرتے ہوئے کہہ رہے تھے۔ ----------------- (۱) الروض الانف: ۳/۱۰۴، سمط النجوم: ۱/۳۱۶ الطبقات الکبریٰ: ۱/۷۲، شرح الزرقانی: ۱/۱۵۵ عیون الاثر: ۱/۴۸، السیرۃ الحلبیہ: ۱/۱۶۲، تاریخ الخمیس:۱/۲۳۹، الخصائص الکبریٰ: ۱/۱۳۶، سبل الہدیٰ: ۲/۱۳۱ خاتم النبیینﷺ: ۱/۳۳۵، سیرۃ ابن ہشام: ۱/۲۸۱