حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
حضرت آمنہ کی ایمان افروز وصیت: اُم سماع ہجو غالباً اسی بستی سے تھیں وہ آنکھوں دیکھا حال یوں کہتی ہیں : یہ حضرت آمنہ کے آخری لمحات تھے، (ننھے حضرت محمدﷺ اس دن پانچ چھ سالہ انتہائی چاک و چوبند لڑکے تھے)، وہ حیران و پریشان اپنی والدہ کے چہرے پہ نظریں جمائے ہوئے تھے، اُدھر ان کی والدہ بھی اپنے لختِ جگر کو مخاطب کر کے کچھ کلمات کہہ رہی تھیں ، میں نے دیکھا اور سنا کہ (وہ اس قسم کے الوداعی کلمات اپنے منہ سے ادا کر رہی ہیں کہ جیسے غیبی اشارات، سچے خوابوں ، دادا عبدالمطلب کے ذریعے گھر میں آنے والی آسمانی بشارتوں اور خود اپنی آنکھوں دیکھے انوارات و برکاتِ رسولﷺ کی وجہ سے یہ سمجھ چکی تھیں کہ ان کا بیٹا وقت کا نبی( علیہ السلام )ہے اور وہ ایک نبی( علیہ السلام )کی والدہ ہیں ۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا نے یہودیوں کی وہ تمام خبریں آمنہ کو سنا دی تھیں جو بازارِ عکاظ و ذوالمجنّہ میں انہیں دی گئیں ، انہوں نے مدینہ میں اہلِ کتاب کی جو تصدیق سنی وہ بھی اس وقت یاد آ رہی تھی۔ کچھ اشعار جو اس وقت ان کی زبان پرجاری ہوئے ان کا مفہوم یہ ہے: اے لڑکے! اللہ تجھے برکت دے۔(اپنی حفاظت و امان میں رکھے) اے (حرمِ محترم جیسے) محفوظ شہر کے بیٹے! (اے فرزندِ حرم!) ملاحظہ: اس شعر کے ساتھ حضرت آمنہ کو وہ واقعہ یاد آیا جو حضرت محمدﷺ کے والد گرامی کے ساتھ پیش آیا تھا، انہیں عبدالمطلب نے اللہ کی رضا کے لیے ذبح کرنے کا پکا ارادہ کر لیا۔ پھر ان کے فدیے میں سو اُونٹ ذبح کر دیے تھے۔ یہ سارا منظر شادی سے پہلے حضرت آمنہ کو خواب میں دکھا دیا گیا تھا، اس لیے حضرت آمنہ نے مزید کہا: اے بیٹے! تمہارے ابو کو سو اُونٹوں کا فدیہ دے کر بچایا گیا، میں نے(ان کے ساتھ نکاح ہونے سے پہلے) جو خواب میں یہ واقعہ دیکھا، صحیح دیکھا۔ اے بیٹے! آپ کو مخلوق کی راہنمائی کے لیے اللہ جل جلالہ کی طرف سے مبعوث کیا جائے گا۔ (عین ممکن ہے حضرت عبدالمطلب نے حضورﷺ سے متعلق ان آسمانی بشارتوں سے حضرت آمنہ کو مطلع کر دیا تھا جو ان کو بعض علماء یمن نے دی تھیں جن کا ذکر باب نمبر۱ میں ہے۔ اس لیے) انہوں نے کہا: اے بیٹے! تمہیں حرم اور حرم (کے علاوہ ساری دنیا )کے لیے مبعوث کیا گیا ہے، آپﷺ(اس دنیا کو )تحقیق اور اسلام سے روشن اور منور کریں گے۔ آپﷺ کے نیک والد کا دین وہی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دین ہے (دیکھو!) تم نے اپنی قوم کے( جاہلانہ رسوم و رواج کے) مطابق نہیں چلنا، تم نے بتوں سے بچنا ہے ( اللہ ہی کی عبادت کرنی ہے )یہی اللہ کا حکم ہے۔