حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
محمدﷺ کے پائے استقامت میں لرزہ خیزی نہ کر سکیں ،قدرت اپنے نبی کی اس طرح دستگیری کرتی ہے کہ دنیا دیکھتی رہ جاتی ہے اور موحد کہاں سے کہاں گزر جاتا ہے اور یہ کہ سب سے پہلے امتحان کے لیے اس کے اپنے اعز و اقرباء ہو سکتے ہیں ، ان کے اندر رہتے ہوئے جو دین پر قائم رہے اس کے لیے معاشرے میں اقامتِ دین مشکل نہیں ہے۔بازارِ ذی المجاز میں : بچپن سے آپﷺ نے تجارت سے خصوصی شغل رکھا، شام کا سفرِ اوّل تو معروف ہے۔ اس کے علاوہ ذی المجاز اور یمن کا تجارتی سفر بھی مذکور ہے۔ دراصل آپﷺ کی شریعت عالمی ہے جو رہبانیت کے خلاف ہے، اس لیے نہ بچپن میں آپﷺ کو گھر بیٹھنا اور دوسروں کے رحم و کرم پہ زندگی بسر کرنا پسند تھا اور نہ جوانی میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے رہنا آپﷺ کی خوددارانہ حیاتِ طیبہ کا حصہ بن سکتا تھا، اس لیے ابو طالب نے شام جانے کا ذکر کیا تو حضورﷺ اس طویل اور مشکل سفر کے لیے تیار ہو گئے اور جب چچا قریبی تجارتی میلے میں جانے لگے تو بھی حضورﷺ تیار ہو گئے اور ابوطالب نے آپﷺ کو اونٹ پہ بٹھایا اور بیت اللہ سے تقریباً بیس کلومیٹر دور لگنے والے بازار کی طرف روانہ ہوئے۔ابوطالب کا بیان ہے، وہ کہتے ہیں : اس سفر میں میرے بھتیجے (حضرت محمدﷺ) بھی تھے، مجھے اچانک پیاس لگی، میرے منہ سے نکلا: بھتیجے! مجھے بہت پیاس لگی ہے۔ میں نے ان سے یہ بات اس لیے نہیں کی تھی کہ ان کے پاس کوئی پانی وغیرہ تھا (یا وہ میرے لیے پانی کا انتظام کریں ) بے صبری میں میرے منہ سے یہ بات نکلی۔ یہ سن کر وہ فوراً اپنی سواری سے اُترے اور مجھ سے کہنے لگے: چچا جان! کیا پیاس لگی ہے؟ میں نے کہا: ہاں ! انہوں نے زمین پر اپنی ایڑی ماری اور زبان سے کچھ پڑھا، اچانک میں نے دیکھا کہ وہاں سے عمدہ پانی برآمد ہوا، میں نے اس جیسا پانی نہ (پیا) اور نہ کہیں دیکھا۔ پھر انہوں نے مجھ سے پانی پینے کے لیے کہا، میں نے پانی پی لیا، تو انہوں نے مجھ سے پوچھا: چچا جی! کیا آپ سیر ہو گئے؟ میں نے کہا: ہاں ۔