حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
اب سمجھ آتا ہے کہ سرزمینِ قلوب کے اعتبار سے حضورﷺ کی پیدائش، نشوونما اور حسین و جمیل شباب کے لیے اس علاقے کو کیوں منتخب کیا گیا؟ اور اس کے برخلاف علم و تہذیب سے قدرے واقف خطے شام و یمن اور مدینہ وغیرہ میں حضورﷺ کو کیوں پیدا نہیں کیا گیا؟(۶) کعبہ سے ہوتی ہے سحر پیدا: روزانہ ایک طویل تاریکی کے بعد صبح ہوتی ہے۔ اسے نمودار کرنے کے لیے ہزاروں ستاروں کوغروب کرنا پڑتا ہے۔ ؎ کہ قتلِ ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا جب کعبہ کے ایک پہلو سے حضرت محمد(ﷺ) نام کی سحر پیدا ہو رہی تھی وہ بھی تب نظر آئی جب وہ ظلم و ستم، شرک و کفر، عیاری و مکاری، جھوٹ، دغا بازی اور غیر انسانی اقدار کے اندھیروں کو چیر چکی تھی، رات نہ ہو تو کوئی بھی صبح صادق کا انتظار نہیں کرتا، اس سرزمینِ حجاز میں نبیوں نے ایک عرصہ تک اُجالا کیے رکھا۔ پھر طویل شبِ دیجور نے انسانوں کو روشنی کے لیے بے چین کر دیا۔ کئی انسان انتظار میں کروٹیں بدلتے بدلتے ہمیشہ کی نیند سو گئے لیکن سورج کا منہ نہ دیکھ سکے اور لاکھوں انسان ’’وادیٔ ابراہیم‘‘ کی طرف منسوب روشنی کی ایک کرن دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔ مصر، شام، یمن، حبشہ، ایران و روم اور دنیا کے ہر کونے میں تورات و زبور کو ماننے والے رہتے تھے۔ ان کے راہنما و علماء اپنے مدارس و خانقاہوں اور شاہوں کے محلّات میں یہی درس دیتے رہتے تھے کہ ’’وادیٔ تیہان‘‘ (مکّہ) میں ہی آخری نبی پیدا ہوں گے۔ اس لیے صدیوں سے لوگ اس سرزمین کی طرف اسی طرح دیکھ رہے تھے جس طرح اس وقت پوری دنیا میں اربوں انسان نماز کے اوقات میں اپنا رُخ اس شہر کی طرف کر لیتے ہیں جس میں حضرت محمدﷺ پیدا ہوئے، جہاں کعبہ ہے اور جہاں انوارات کی بارش ہوتی ہے اور پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ چنانچہ وعدۂ خداوندی کے مطابق لوگوں کی اُمیدوں کے مرکز میں ہی حضرت محمد کریمﷺ پیدا ہوئے اور کائنات کے سانس میں سانس آیا۔ اب سمجھ آ گئی یہ بات کہ جب بیت اللہ قبلۂ عالم نہیں تھا اور عبادت بیت المقدس کی طرف منہ کر کے ادا کی جا رہی تھی ان ایام میں بھی کعبۃُ النظور و قبلۃُ القلوب (قلب و نظر کی اُمیدوں کا مرکز) بیتُ اللہ ہی کیوں تھا؟ کہ سحر یہیں سے پیدا ہونی تھی۔ یہیں وہ سیاہ پوش گلاب ہے جو کعبہ کی شکل میں کھڑا ہمیشہ سے دعوتِ توحید دے رہا ہے۔(۷) قلبِ منیب کا رُخ ہوتا ہے اِدھر کیوں ؟ صدیوں سے سلیم الفطرت انسان ادھر کیوں نہ دیکھتے، یہیں سے ان کو جلا مل رہی تھی۔ ان کے دلوں کا رُخ اس طرف کیوں تھا؟ کہیں اور نظر کیوں نہ ٹکتی تھیں ؟ ہم دیکھتے ہیں کہ قطب نما کی سوئی کا رُخ ایک ہی طرف رہتا ہے۔ اسے ہزار بار