حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
دنوں تک ٹھہرا کرتے تھے۔ اس (ذی المجاز) کے بازار میں ایک نجومی تھا جس کے پاس لوگ اپنے بچے لے کر آتے اور وہ ان کو دیکھ کر ان کی قسمت کا حال بتاتا تھا (جب حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کا آپﷺ کے ساتھ یہاں سے گزر ہوا تو اس نجومی نے بھی آپﷺ کو دیکھ لیا (جب مہرِ نبوت اس کی نظر سے گزری) اور ساتھ ہی آپ کی آنکھوں میں جو ایک (خاص قسم کی) سرخی تھی اسے دیکھا تو وہ ایک دم چلانے لگا: اے گروہِ عرب! اس لڑکے کو قتل کر دو، یہ یقینا تمہارے دین کے ماننے والوں کو قتل کرے گا، تمہارے بتوں کو توڑے گا اور یہ تم لوگوں پر غالب ہوگا، یہ آسمان کی طرف سے ظاہر ہونے والے معاملات کو دیکھ رہا ہے۔‘‘ پھر وہ آنحضرتﷺ کی طرف جھپٹا، جس کے نتیجہ میں وہ اسی وقت پاگل ہو گیا اور اسی دیوانگی میں مر گیا۔(۱) سیرت ابن ہشام میں ہے کہ حبش کے عیسائیوں کی ایک جماعت کا آنحضرتﷺ کے پاس سے گزر ہوا۔ اس وقت حضرت محمد کریم، خاتم النبیینﷺ اپنی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ تھے۔ ان لوگوں نے آپﷺ کو دیکھا اور پھر آپﷺ کے دونوں مونڈھوں کے درمیان مہرِ نبوت اور آنکھوں کی سرخی کا نظارہ کیا تو دایہ حلیمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:’’کیا اس بچے کی آنکھوں میں کوئی تکلیف ہے؟‘‘ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نہیں (تکلیف تو کوئی نہیں ہے) مگر یہ سرخی کسی وقت بھی آنکھوں سے ہٹتی نہیں ۔ تب ان عیسائیوں نے کہا: ہم اس بچے کو لے رہے ہیں ، ہم اس کو اپنے ساتھ اپنے ملک اور وطن میں لے جائیں گے، یہ بچہ پیغمبر اور بڑی شان والا ہے۔ ہم اس کے متعلق سب کچھ جانتے ہیں ۔‘‘ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا فوراً ان لوگوں سے بھی بچ کر نکل گئیں ۔(۲) --------------------------------- (۱) الطبقات الکبریٰ: ۱/۱۲۱، الخصائص الکبریٰ: ۱/۹۹ سہل الہدیٰ: ۱/۳۸۸ السیرۃ الحلبیہ: ۱/۱۴۰ (۲) الروض الانف: ۲/۱۱۷، سیرۃ ابن ہشام ۱/۱۶۷، الاکتفاء: ۱/۱۰۲، السیرۃ النبویۃ: ۱/۱۸۹ السیرۃ الحلبیۃ : ۱/۱۴۱