حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن |
|
(۲)اعلیٰ اخلاق کی حامل قوم: اس سرزمین کی خوبی یہ تھی کہ یہاں رہنے والی قوم( عرب) ہر قسم کی برائیوں میں لت پت ہونے کے باوجود ایسی چند خوبیوں کی مالک تھی، جن کا اس قوم میں ہونا ضروری تھا، جو آسمانی امانت(قرآن و مذہبِ اسلام و عشقِ رسولﷺ) کی سعادت اور ذمہ داریوں کو ادا کرسکے۔ معروف ہے کہ جس قوم کے درمیان آپﷺ پیدا ہوئے وہ مشرک، بدخلق، تند مزاج، خسیس اور رذیل خصائل میں یکتائے زمانہ تھی، لیکن کیا اسی قوم سے جہانداری کا کام نہیں لیا گیا؟ اور کیا ان ہی میں رہنے والے افراد نے وقت کے سکندر و دارا، قیصر و کسریٰ کو گھٹنوں کے بل نہیں گرایا؟ اور کیا وہ یہی قوم نہیں ہے جس نے فقیری میں شاہی اور شاہی میں فقیری کے گر سے دنیا کو آگاہ کیا؟ بالاخر ان میں کچھ صفات تو ضرور تھیں جن کی وجہ سے اللہ نے اپنے محبوب پیغمبرﷺ کو ان کے درمیان پیدا کر کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کی قبولیت کا منظر دکھایا جو انہوں نے اس جگہ سے چند قدم آگے مانگی تھی۔ جہاں آپﷺ کی پیدائش ہوئی۔ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے گزارش کی: رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ (البقرہ::۱۲۹ ) ’’اے رب ہمارے! ان میں ایک رسول بھیج جو ان ہی میں سے ہو۔‘‘ ان کی قابلِ اعتراض عادات اور دینِ ابراہیمی کی صریح مخالفت کے جرم کے باوجود ان کی چند صلاحیتیں ایسی تھیں جو اسلام کی ترقی کے لیے ضروری تھیں ۔ اسی لیے جب اس مقدس شہر کے جو لوگ ایمان لائے توانہوں نے بہت جلد اسلامی ترقی کی اور ایسے ایمانی ستون بنے کہ ان پر بڑے سے بڑے بوجھ آن پڑے لیکن وہ نہ جھکے، ان کے اخلاقِ فاضلہ یہ ہیں : کرم و سخاوت: وہ اگر بخیل و کنجوس ہوتے تو نہ زکوٰۃ ادا کر سکتے اور نہ ایثار کی یہ کہانیاں جنم لیتیں جنہوں نے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ ایفائے عہد: جس نبیﷺ نے اُن میں مبعوث ہونا تھا اس نے پوری دنیا کو تمدن، معاشرت اور کاروبارِ حیات کا نیا رُخ دینا تھا۔ اس لیے ان کی آمد سے پہلے اس قوم میں وعدہ وفائی کی خصلت پروان چڑھا دی گئی تاکہ اقوامِِ عالم ان پر بھروسہ کریں اور پوری دنیا میں تبلیغِ دین، تمدنِ اسلام، امن معاہدے اور تجارت آسان ہو جائیں ۔ خودداری و عزّتِ نفس: یہ عادت نہ ہوتی تو جہاد فی سبیل اللہ کی داغ بیل نہ ڈالی جا سکتی، نتیجتاً یہ لوگ خود بھی ظلم برداشت کرنے کے خوگر ہوتے اور دوسروں کو بھی سر جھکا کر رہنے کا درس دیتے۔ جبکہ اسلام ایک خوددار مذہب ہے جو نہ ظالم بننا پسند کرتا ہے اور نہ مظلوم ہونا اسے محبوب ہے۔ وہ ہر انسان کو اس کے بنیادی حقوق تک رسائی دیتا ہے۔